آج ہی کے دن یعنی27 اکتوبر 1958 کو پاکستان کے پہلے مارشل لا کے مکمل فوجی راج کا آغاز ہوا۔ اسی رات ایوب خان نے سویلین صدر سکندر مرزا سے چھٹکارا پا کر مارشل لائی نظام کی بنیاد رکھی۔
اس واقعے کو دہائیاں بیت چکی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پر اس کے نتائج اور اثرات اب بھی اکثر بحث و مباحثوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
جب ہیوی مینڈیٹ ہی نواز شریف کا بڑا دشمن ثابت ہواNode ID: 541686
-
مری کی پہچان صرف برف نہیں، صدیوں پرانا ثقافتی ورثہ بھیNode ID: 636691
-
دھڑے بندی: حالات کا جبر یا اقتدار کی خواہش؟Node ID: 773516
مگر 65 برس قبل نظام حکومت کی تبدیلی کا واقعہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ کے نواحی علاقے ٹائیں کے ایک رہائشی کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔
ان کا جنم اسی رات ہوا۔ جب ان کی پیدائش ہوئی تو ملک میں مارشل لا کا شہرہ تھا۔ گھر والوں نے اسی مناسبت سے نو مولود کا نام ’مارشل لا خان‘ رکھ دیا۔
دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات، حادثات اور نمایاں شخصیات کا اثر ناموں کے انتخاب پر پڑتا ہے۔
مگر شاید ہی پاکستان میں کسی بچے کو مارشل لا کا نام دینے کی کوئی اور مثال موجود ہو۔
بچپن اور لڑکپن میں انہیں ’مارشل لا خان‘ کے نام سے جانا اور پکارا جاتا تھا۔ 18 سال کی عمر میں ان کا نام مارشل لاء سے محاذ اللہ ہو گیا۔ مگر آبائی علاقے میں ان کے تعارف کا حوالہ اب بھی ان کا پہلا نام ہی ہے۔

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ نام کی تبدیلی کے باوجود وہ گھر والوں کی طرف سے دیے گئے نام کے ساتھ ایک خاص طرح کی انسیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ انہیں دیگر لوگوں سے منفرد ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
’مارشل لا‘ نام بتانے پر پٹائی
محاذ اللہ خان (مارشل لاء خان) کو اپنے نام کے معنی اور اس کے ساتھ جڑے حساس تصورات کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس نام کے باعث ایک مرتبہ ان کی پٹائی ہوئی اور وہ بھی فوجی جوانوں کے ہاتھوں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 1977 میں جب ضیا الحق کا مارشل لا نافذ ہوا تو وہ کراچی میں تھے۔
ایک شام فوجی جوان لوگوں کو مارکیٹ سے اپنے گھروں کو جانے کا کہہ رہے تھے۔ نو عمری کی وجہ سے انہوں نے فوجیوں کی بات پر کان نہ دھرا۔
ایک جوان ان کے پاس بھی آیا اور تحکم آمیز لہجے میں ان کا نام دریافت کیا۔
’میں مارشل لا ہوں‘ ان کا جواب سن کر فوجی اہلکار نے غصے میں انہیں تھپڑ جڑ دیا۔ ساتھ ہی انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا، ’مارشل لا ہم ہیں‘

اس واقعے سے انہیں احساس ہوا کہ نام کا کوئی اور مطلب بھی ہو سکتا ہے۔
’مارشل لا خان‘ محاذ اللہ کیسے ہوا؟
دلچسپ امر ہے کہ ملک کے پہلے مارشل لا کا دیا ہوا نام دوسرے مارشل لا میں تبدیل ہو گیا۔
اس کی وجہ ان کا فوج میں شمولیت اختیار کرنا تھا۔
’میں آزاد کشمیر رجمنٹ میں بھرتی ہونے کے لیے مانسر کیمپ گیا۔ میں نے اپنا نام بتایا تو آگے سے حیرت کا اظہار کیا گیا کہ یہ کیا نام ہوا۔ میرے ایک رشتہ دار کرنل ظفر صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے میری بھرتی کو یقینی بنانے کے لیے وہیں کھڑے کھڑے میرا نام محاذ اللہ رکھ دیا۔‘

مارشل لاء سے محاذ اللہ ہونے کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے کوائف میں نئے نام کے باوجود اپنے پرانے نام سے ناطہ نہیں توڑا۔
فوج میں ان کے ساتھی اکثر انہیں مارشل لا کا نام لے کر چھیڑتے تھے۔
یونٹ میں جب بھی ان سے گاؤں کا کوئی بندہ ملنے آتا تو وہ پرانے نام سے ہی ان کا پتہ جانے کی کوشش کرتا۔
’مارشل لا‘ سپریم کورٹ میں
پاکستان میں مارشل لا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نظریہ ضرورت کے زیر اثر قرار دے کر اکثر حرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت کی راہداریوں میں ’مارشل لا‘ 25 برس تک چلتا پھرتا رہا۔
محاذ اللہ نے فوج میں 18 برس کی ملازمت کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔ ان کی اگلی ملازمت سپریم کورٹ سے بحیثیت ڈرائیور وابستگی تھی۔
’چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے لے کر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تک سارے چیف جسٹس حضرات کے ساتھ میں نے بطور ڈرائیور ڈیوٹی کی۔ عدلیہ کی تاریخ کے بہت سارے واقعات کا عینی شاہد بھی ہوں۔‘

محاذ اللہ خان نے اردو نیوز کو سپریم کورٹ میں گزرے 25 برسوں کی ملازمت کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بتایا۔
ان کے الفاظ میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اپنے ذاتی مسائل کے حل کے لیے افتخار چوہدری صاحب سے مدد لیتے رہتے ہیں۔
تین نومبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگا کر پی سی او پر حلف نہ اٹھانے والے ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے تھے۔
محاذ اللہ خان سے دوران ڈرائیونگ ایک بار انہوں نے اپنے بارے میں لوگوں کا تاثر جاننے کی کوشش کی۔ ان کے بقول ’میں نے جواب دیا کہ لوگ اب بھی افتخار چوہدری کو چیف جسٹس سمجھتے ہیں۔‘
ان کا جواب سن کر جسٹس ڈوگر غصے میں آگئے اور انہیں چیف جسٹس کے ساتھ ڈیوٹی سے ہٹا کر کسی اور جگہ بھیج دیا۔
’مارشل لا خان‘ نام دینے والا باغی ہو گیا
27 اکتوبر 1958 کی رات پیدا ہونے والے محاذ اللہ کو مارشل لا کا نام ان کے رشتے کے ایک ماموں نے دیا تھا۔
بظاہر تو لگتا ہے کہ وہ مارشل لا کے معترف ہوئے ہوں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس اور دلچسپ ہے۔
آج کل لندن میں قیام پذیر الطاف عباسی نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ نام رکھنے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس رات ملک میں مارشل لگا تھا۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں دور دراز دیہات میں ناموں کی کمی تھی۔ مگر یہ حقیقت بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گی کہ یہی الطاف عباسی ضیا الحق کے مارشل لا کے باغی بھی کہلائے۔
