Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب فوجی جوانوں نے ’مارشل لا خان‘ کو تھپڑ جڑ دیے

 آج ہی کے دن یعنی27 اکتوبر 1958 کو پاکستان کے پہلے مارشل لا کے مکمل فوجی راج کا آغاز ہوا۔ اسی رات ایوب خان نے سویلین صدر سکندر مرزا سے چھٹکارا پا کر مارشل لائی نظام کی بنیاد رکھی۔
اس واقعے کو دہائیاں بیت چکی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پر اس کے نتائج اور اثرات اب بھی اکثر بحث و مباحثوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔
مگر 65 برس قبل نظام حکومت کی تبدیلی کا واقعہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ کے نواحی علاقے ٹائیں کے ایک رہائشی کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔
ان کا جنم اسی رات ہوا۔ جب ان کی پیدائش ہوئی تو ملک میں مارشل لا کا شہرہ تھا۔ گھر والوں نے اسی مناسبت سے نو مولود کا نام ’مارشل لا خان‘ رکھ دیا۔
دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات، حادثات اور نمایاں شخصیات کا اثر ناموں کے انتخاب پر پڑتا ہے۔
مگر شاید ہی پاکستان میں کسی بچے کو مارشل لا کا نام دینے کی کوئی اور مثال موجود ہو۔
بچپن اور لڑکپن میں انہیں ’مارشل لا خان‘ کے نام سے جانا اور پکارا جاتا تھا۔ 18 سال کی عمر میں ان کا نام مارشل لاء سے محاذ اللہ ہو گیا۔ مگر آبائی علاقے میں ان کے تعارف کا حوالہ اب بھی ان کا پہلا نام ہی ہے۔

مارشل لا خان کی پیدائش اس دن ہوئی جس دن جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لا لگا دیا۔ (فوٹو: وکی میڈیا) 

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ نام کی تبدیلی کے باوجود وہ گھر والوں کی طرف سے دیے گئے نام کے ساتھ ایک خاص طرح کی انسیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ انہیں دیگر لوگوں سے منفرد ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

’مارشل لا‘ نام بتانے پر پٹائی      

محاذ اللہ خان (مارشل لاء خان) کو اپنے نام کے معنی اور اس کے ساتھ جڑے حساس تصورات کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس نام کے باعث ایک مرتبہ ان کی پٹائی ہوئی اور وہ بھی فوجی جوانوں کے ہاتھوں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 1977 میں جب ضیا الحق کا مارشل لا نافذ ہوا تو وہ کراچی میں تھے۔
ایک شام فوجی جوان لوگوں کو مارکیٹ سے اپنے گھروں کو جانے کا کہہ رہے تھے۔ نو عمری کی وجہ سے انہوں نے فوجیوں کی بات پر کان نہ دھرا۔
ایک جوان ان کے پاس بھی آیا اور تحکم آمیز لہجے میں ان کا نام دریافت کیا۔
’میں مارشل لا ہوں‘ ان کا جواب سن کر فوجی اہلکار نے غصے میں انہیں تھپڑ جڑ دیا۔ ساتھ ہی انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا، ’مارشل لا ہم ہیں‘

1977 میں ضیاالحق نے مارشل لا لگایا تھا۔ (فوٹو: وکی میڈیا)

اس واقعے سے انہیں احساس ہوا کہ نام کا کوئی اور مطلب بھی ہو سکتا ہے۔

مارشل لا خان‘ محاذ اللہ کیسے ہوا؟

دلچسپ امر ہے کہ ملک کے پہلے مارشل لا کا دیا ہوا نام دوسرے مارشل لا میں تبدیل ہو گیا۔
اس کی وجہ ان کا فوج میں شمولیت اختیار کرنا تھا۔
’میں آزاد کشمیر رجمنٹ میں بھرتی ہونے کے لیے مانسر کیمپ گیا۔ میں نے اپنا نام بتایا تو آگے سے حیرت کا اظہار کیا گیا کہ یہ کیا نام ہوا۔ میرے ایک رشتہ دار کرنل ظفر صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے میری بھرتی کو یقینی بنانے کے لیے وہیں کھڑے کھڑے میرا نام محاذ اللہ رکھ دیا۔‘

فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ’مارشل لا خان‘ نے سپریم کورٹ میں ملازمت اختیار کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 مارشل لاء سے محاذ اللہ ہونے کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے کوائف میں نئے نام کے باوجود اپنے پرانے نام سے ناطہ نہیں توڑا۔
فوج میں ان کے ساتھی اکثر انہیں مارشل لا کا نام لے کر چھیڑتے تھے۔
یونٹ میں جب بھی ان سے گاؤں کا کوئی بندہ ملنے آتا تو وہ پرانے نام سے ہی ان کا پتہ جانے کی کوشش کرتا۔

’مارشل لا‘ سپریم کورٹ میں

پاکستان میں مارشل لا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نظریہ ضرورت کے زیر اثر قرار دے کر اکثر حرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت کی راہداریوں میں ’مارشل لا‘ 25 برس تک چلتا پھرتا رہا۔
محاذ اللہ نے فوج میں 18 برس کی ملازمت کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔ ان کی اگلی ملازمت سپریم کورٹ سے بحیثیت ڈرائیور وابستگی تھی۔
’چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے لے کر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تک سارے چیف جسٹس حضرات کے ساتھ میں نے بطور ڈرائیور ڈیوٹی کی۔ عدلیہ کی تاریخ کے بہت سارے واقعات کا عینی شاہد بھی ہوں۔‘

مارشل لا خان کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

محاذ اللہ خان نے اردو نیوز کو سپریم کورٹ میں گزرے 25 برسوں کی ملازمت کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بتایا۔
ان کے الفاظ میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اپنے ذاتی مسائل کے حل کے لیے افتخار چوہدری صاحب سے مدد لیتے رہتے ہیں۔
تین نومبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگا کر پی سی او پر حلف نہ  اٹھانے والے ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے تھے۔
محاذ اللہ خان سے دوران ڈرائیونگ ایک بار انہوں نے اپنے بارے میں لوگوں کا تاثر جاننے کی کوشش کی۔ ان کے بقول ’میں نے جواب دیا کہ لوگ اب بھی افتخار چوہدری کو چیف جسٹس سمجھتے ہیں۔‘
ان کا جواب سن کر جسٹس ڈوگر غصے میں آگئے اور انہیں چیف جسٹس کے ساتھ ڈیوٹی سے ہٹا کر کسی اور جگہ بھیج دیا۔

’مارشل لا خان‘ نام دینے والا باغی ہو گیا

27  اکتوبر 1958 کی رات پیدا ہونے والے محاذ اللہ کو مارشل لا کا نام ان کے رشتے کے ایک ماموں نے دیا تھا۔
بظاہر تو لگتا ہے کہ وہ مارشل لا کے معترف ہوئے ہوں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس اور دلچسپ ہے۔
آج کل لندن میں قیام پذیر الطاف عباسی نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ نام رکھنے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس رات ملک میں مارشل لگا تھا۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں دور دراز دیہات میں ناموں کی کمی تھی۔ مگر یہ حقیقت بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گی کہ یہی الطاف عباسی ضیا الحق کے مارشل لا کے باغی بھی کہلائے۔

افتخار چوہدری کی تعریف کرنے پر جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے مارشل لا خان کو چیف جسٹس کے ساتھ ڈیوٹی سے ہٹا دیا تھا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

1981  کے اوائل میں ملک میں ضیاء الحق کی فوجی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک سازش بے نقاب ہونے کا انکشاف ہوا۔
مبینہ طور پر بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں نے لیبیا کی حکومت کی مدد سے اس وقت کی حکومت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کا منصوبہ بنایا تھا۔ اسی وجہ سے اس واقعے کو ’لیبیا سازش کیس کا نام دیا گیا۔
الطاف عباسی بھی اسی مبینہ لیبیا سازش کیس کا حصہ تھے۔ وہ ان افراد میں شامل تھے جنہیں کراچی میں لیبیا کے قونصلیٹ سے رابطوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔
اسی کیس میں معروف شاعرہ افضل توصیف، قائد اعظم یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر کنیز فاطمہ، فرخندہ بخاری سمیت بہت سارے سیاسی کارکن دھر لیے گئے تھے۔
محاذ اللہ خان سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد آج کل اپنے آبائی علاقے میں خاندان کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں ۔
وہ اپنے آپ کو جمہوریت کا حامی قرار دیتے ہیں۔ مگر نہ جانے ان کے نام کا اثر ہے یا کوئی اور وجہ وہ مارشل لا کی کھل کر مذمت کرنے سے گریز بھی کرتے ہیں۔

شیئر: