Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہدایتکار و فلم ساز آغا حسن عسکری کا انتقال: جنہوں نے سلطان راہی کو ’مولا جٹ‘ بنایا

آغا حسن عسکری نے پنجاب، اردو اور پشتو میں 60 سے زائد فلمیں بنائیں (فائل فوٹو: فیس بک، ظفر سیماب)
بڑی سکرین پر بہت سے نئے چہروں کو شناخت دینے والے معروف ہدایت کار اور پروڈیوسر آغا حسن عسکری 78 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
لاہور کے شیخ زید ہسپتال کی انتظامیہ نے پیر کے روز ان کی موت کی خبر دی جہاں وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے باعث زیرِعلاج تھے۔
آغا حسن عسکری کا شمار ان فلمی ہستیوں میں کیا جاتا ہے جن کے دم سے اسی اور نوے کی دہائی میں فلمی صنعت نے اپنا عروج دیکھا مگر آغا حسن عسکری ہی سلطان راہی اور وحشی جٹ بنانے والوں میں شامل تھے جس کے باعث فلموں میں گنڈاسہ کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔
آغا حسن عسکری کی پہلی فلم ’خون پسینہ‘ تھی جو انہوں نے 1972 میں بنائی۔ اس فلم کی کاسٹ میں مرکزی کردار لالہ سدھیر اور فردوس کا تھا جبکہ اس فلم میں سلطان راہی بھی جلوہ گر ہوئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ سلطان راہی کو سلطان راہی بنانے والے آغا حسن عسکری تھے۔ 
پاکستان کی شوبز انڈسٹری کو پچھلی چار دہائیوں سے رپورٹ کرنے والے سینئر صحافی طاہر سرور میر کہتے ہیں کہ ’میرا آغا صاحب سے پینتیس سال پرانا تعلق تھا۔ ان کے ہاتھوں میں جادو تھا۔ کسی کردار کو اٹھاتے تھے تو آسمان پر پہنچا دیتے تھے۔ سلطان راہی، مصطفٰی قریشی، انجمن اور بابرہ شریف پاکستان کی فلم انڈسٹری کے وہ نام ہیں جنہیں بڑے پردے پر آغا حسن عسکری نے متعارف کروایا تھا۔‘
فلمی شعبے سے وابستہ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ جب پنجابی فلموں میں مار دھاڑ کے کلچر کا آغاز ہوا تو اس کے بانی بھی آغا حسن عسکری ہی تھے۔
طاہر سرور میر بتاتے ہیں کہ ’ان کی پہلی فلم وحشی جٹ تھی جس نے پنجابی سنیما میں ہلچل پیدا کی لیکن اس میں کئی چیزیں رہ گئی تھیں۔ بعد میں جب ناصر ادیب اپنی کہانی لے کر سٹوڈیوز کے چکر لگا رہے تھے تو آغا صاحب نے اس کہانی پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور پھر مولاجٹ کا ظہور ہوا۔

ناصرادیب کی کہانی کو مولا جٹ کا روپ عطا کرنے والے حسن عسکری تھے (فائل فوٹو: پوسٹر، مولاجٹ)

یہ فلم اگرچہ آغا یونس کی ہدایت کاری میں بنی لیکن ناصرادیب کی کہانی کو مولا جٹ کا روپ عطا کرنے والے حسن عسکری ہی تھے۔ انہوں نے جو کچھ وحشی جٹ سے سیکھا تھا اسے مولاجٹ کا حصہ بنا دیا۔
خیال رہے کہ آغا حسن عسکری نے پنجاب، اردو اور پشتو میں 60 سے زائد فلمیں بنائیں اور دس فلموں کے پروڈیوسر وہ خود تھے۔ ان کی اردو زبان کی مشہور زمانہ  فلم ’سلاخیں‘ تھی جو انہوں نے 1977 میں بنائی جس کے بعد وہ پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے کامیابی کی ضمانت بن گئے۔
طاہر سرور میر ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’نوے کی دہائی پاکستان کی فلم انڈسٹری کے عروج کی آخری دہائی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والے زوال کا آغاز ہوا۔ سال دو ہزار کے بعد یہ انڈسٹری تقریباً ختم ہو گئی۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’حسن عسکری نے ایک دو فلمیں بنائیں لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس زوال نے اس شعبہ سے وابستہ بڑے بڑے جادوگروں کو کھا لیا۔ میری جب ان سے آخری ملاقات ہوئی تو وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اگر یہ کوئی اور ملک ہوتا اور یہ انڈسٹری تباہ نہ ہوتی تو وہ کئی دہائیاں اور زندہ رہتے۔‘
آغا حسن عسکری کو ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے پرائڈ آف پرفارمنس سمیت کئی قومی ایوارڈز سے نوازا تھا۔
 

شیئر: