Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ: ہسپتال میں خطرناک وائرس پھیلنے سے ایک ڈاکٹر ہلاک

رواں سال اب تک بلوچستان کے 10 اضلاع سے کانگو کے 70 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں(فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے ایک سرکاری ہسپتال میں کانگو کے متاثرہ مریض کا علاج کرنے والے آٹھ ڈاکٹر اور طبی عملے کے ارکان خود اس خطرناک مرض کا شکار ہو گئے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر کی موت ہو گئی ہے جبکہ ایک شہری بھی جانبر نہ ہو سکا۔
شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سول ہسپتال کے شعبہ میڈیسن میں رواں ہفتے دوران علاج مرنے والے تین مریض بھی اسی بیماری میں مبتلا تھے۔
دوسری جانب حکومت نے کوئٹہ میں کانگو وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے۔
سیکریٹری صحت بلوچستان عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ 
سول ہسپتال کوئٹہ کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اسحاق پانیزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ معاملہ چند روز قبل اس وقت سامنے آیا جب سول ہسپتال کے میڈیسن وارڈ اور آئی سی یو میں داخل تین مریضوں کی یکے بعد دیگرے موت ہوئی اور ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اور طبی عملہ بھی اچانک بیمار ہونے لگا۔
انہوں نے بتایا کہ ’متاثرہ افراد کو جسم میں شدید بخار، درد، پلیٹ لیٹس میں تیزی سے کمی اور کچھ کو سانس لینے میں دقت جیسی علامات تھیں۔ ابتدائی طور پر معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کون سا مرض ہے تاہم فوری طور پر متاثرین کو الگ تھلگ کیا گیا۔‘ 
ڈاکٹر اسحاق نے بتایا کہ اس کے ساتھ ہی محکمہ صحت نے نامعلوم پیتھوجین کی وبا پھیلنے کا الرٹ جاری کیا۔ مریضوں، تیمار داروں، ڈاکٹروں اور طبی عملے کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔
سیکریٹری صحت بلوچستان عبداللہ خان کے مطابق انیٹگریٹڈ ہیلتھ مانیٹرنگ اینڈ ایمرجنسی رسپانس یونٹ  اور پروینشل ڈیزیز سرویلنس اینڈ رسپانس یونٹ (پی ڈی ایس آر یو) نے فوری طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ متاثرہ شعبوں میں مزید مریضوں کے داخلے روک کر 18 متاثرین کے پی سی آر ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے آٹھ کے ٹیسٹ پازیٹیو آئے اور معلوم ہوا کہ یہ نامعلوم مرض کریمین کانگو ہیمرجک فیور (سی سی ایچ ایف) ہے جسے عرف عام میں کانگو کہتے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔

محکمہ صحت کے ترجمان لے مطابق کانگو وائرس کے شکار  ڈاکٹر شکر اللہ کی دوران علاج موت ہو گئی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق متاثرین میں ایک سینیئر کنسلٹنٹ سمیت پانچ ڈاکٹر اور طبی عملے کے تین ارکان شامل ہیں جنہیں بہتر علاج کے لیے سرکاری خرچ پر کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے تاہم بدقسمتی سے ان میں سے ایک ڈاکٹر شکر اللہ کی دوران علاج موت ہو گئی ہے۔
سول ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اسحاق پانیزئی کے مطابق ہسپتال کے متاثرہ شعبوں کو وائرس سے پاک کرنے کے لیے سپرے لازمی ہے۔ اس لیے میڈیسن وارڈ اور آئی سی یو میں داخل 31 مریضوں کو شیخ زید ہسپتال میں قائم کیے گئے آئسولیشن وارڈ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ینگ ڈاکٹرز کا ردعمل

ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر ڈاکٹر کلیم اللہ نے ڈاکٹر شکر اللہ کی موت کی ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اگر صحت کی سہولیات ہوتیں تو انہیں کراچی منتقل کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ جہاں ڈاکٹروں کو علاج نہ ملے، اس صوبے میں عام مریضوں کا کیا حالت ہو گی خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کانگو کے مریض کو بچانے کے لیے خون اور پلیٹ لیٹس کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہم 100 ڈاکٹر لے کر خون اور پلیٹ لیٹس کے عطیے کے لیے سرکاری بلڈ بینک (ریجنل بلڈ سینٹر) گئے مگر وہاں پلیٹ لیٹس کے بیگ ہی دستیاب نہیں تھے۔
ڈاکٹر کلیم اللہ کے مطابق کوئٹہ میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو ایئر ایمبولینس ہی نہ مل سکی اور انہیں بذریعہ سڑک کراچی لے جایا گیا۔

’لسبیلہ میں ایمبولینس کو تین گھںنٹے روکا گیا‘

انہوں نے بتایا کہ ’راستے میں لسبیلہ کے علاقے وندر میں ایمبولینس کو کوسٹ گارڈ کی چیک پوسٹ پر تین گھنٹے سے زائد روکا گیا۔ سیکورٹی اہلکاروں نے منت اور سماجت کے باوجود انہیں نہیں چھوڑا جس کی وجہ سے مریض ڈاکٹر شکر اللہ کی طبیعت بگڑ گئی اور ہسپتال پہنچتے ہی ان کی موت ہو گئی۔‘
ینگ ڈاکٹر ز ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صحت کا شعبہ تباہ ہے، سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات دستیاب ہیں اور نہ ہی حفاظتی انتظامات پر توجہ دی جاتی ہے۔ 
سول ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ مرض انتہائی نگہداشت وارڈ میں انفیکشن پروینشن اینڈ کنٹرول (آئی پی سی ) کے مروجہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پھیلا ہے۔‘
ان کے بقول آئی سی یو میں کام کرنے والے ڈاکٹر اور طبی عملے کے لیے حفاظتی کٹ، دستانے پہننے  اورمریضوں کے علاج میں استعمال ہونے والے طبی آلات کو جراثم کش ادویات سے صاف کرنا لازمی  ہوتا ہے۔ اسی طرح وائرل انفیکشن کے شکار مریضوں کو الگ تھلگ رکھنے اور ان کے زیراستعمال اشیا کو تلف یا جراثیم سے پاک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 
وائی ڈی اے کے صدر ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں حفاظتی کٹ سمیت دیگر سہولیات دستیاب ہی نہیں، اس لیے ڈاکٹر اور میڈیکل سٹاف اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام  کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کانگو کا مرض انتہائی خطرناک ہے یہ تیزی سے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے اس لیے کانگو کے کسی بھی مشتبہ مریض کی ہسپتال منتقلی کا عمل مختلف ہوتا ہے اور اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے انہیں الگ سے مختص وارڈ میں رکھا جاتا ہے مگر ابتدائی طور پر تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے لورالائی سے ایک مریض کو متعلقہ شعبے کی بجائے براہ راست سول ہسپتال کے میڈیسن وارڈ لایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مریض کو تیز بخار تھا اور اس کے پلیٹ لیٹس تیزی سے کم ہورہے تھے اس کے بعد یہی علامات اسی اوارڈ میں پہلے سے داخل دو شدید علیل مریضوں میں بھی ظاہر ہونا لگیں۔ ایک دو روز میں تینوں کی موت ہوگئی۔

 کوئٹہ میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا (فوٹو: سکرین گریب)

ڈاکٹر کلیم اللہ نے بتایا کہ اس وقت تک یہ پتہ نہیں تھا کہ مرنے والے افراد کانگو وائرس کا شکار تھے تاہم ان مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اور طبی عملہ بیمار ہونے لگا تو ہمارا شبہ کانگو کی جانب گیا اور ہم نے خود ہی متاثرہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو الگ کیا۔ 
نگراں وزیراعلٰی بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی نے ڈاکٹر شکر اللہ کی موت پر ان کے خاندان سے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے بیان میں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکر اللہ خان پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت کانگو وائرس سے مٹاثرہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کے علاج کے لیے ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ ایک کنسلٹنٹ، تین ڈاکٹروں، ایک سٹاف نرس اور دو پیرا میڈیکل سٹاف کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے کراچی منتقل کیا گیا۔
تاہم وائی ڈی اے کے صدر ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے ۔ سات متاثرہ ڈاکٹر اور میڈیکل سٹاف کو سڑک کے راستے کراچی لے جایا گیا جبکہ  صرف ایک ڈاکٹر کو پانچ دن بعد ایئر ایمبولینس کے ذریعے کراچی لے جایا گیا۔ وہ بدھ سے آئی سی یو میں داخل تھے۔

’ڈاکٹر شکر اللہ کی میت لے جانا والا کوئی نہیں تھا‘

وائی ڈی اے کے صدر ڈاکٹر کلیم اللہ کے مطابق ڈاکٹر شکر اللہ نے دوسروں کی جان بچاتے اور پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جان کی قربانی دی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر شکر اللہ کا تعلق بلوچستان کے سب سے پسماندہ اور شورش زدہ ضلع آواران سے تھا اور وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بے امنی کی وجہ سے اپنے آبائی علاقے سے کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ ان کے والد کی کچھ عرصہ قبل دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی تھی جبکہ ایک بھائی پہلے ہی فوت ہو چکے تھے ۔
انہوں نے بتایا کہ والد اور بھائی کے انتقال کے بعد ڈاکٹر شکراللہ تین بہنوں کا واحد سہارا تھے۔ جب کراچی میں ان کی موت ہوگئی تو ہسپتال سے میت گھر لے جانے والا کوئی نہیں تھا۔ ان کی میت ساتھی ڈاکٹر ان کے گھر لے کر گئے۔

ریڈ الرٹ جاری 

دوسری جانب حکومت نے کوئٹہ میں کانگو وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے۔ سرکاری بیان کے مطابق نگراں وزیراعلٰی میر علی مردان ڈومکی نے محکمہ صحت اور محکمہ حیوانات کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ہدایت جاری کی ہیں۔
وزیراعلٰی نے ہسپتالوں، مال مویشیوں کی چراگاہوں، ڈیری فارمزمیں سپرے کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
کوئٹہ میں کانگو وائرس کے مریضوں کا علاج فاطمہ جناح ہسپتال میں کیا جاتا ہے ۔ ہسپتال کے ترجمان کے مطابق اتوار کو ایک بچی سمیت دو مزید مشتبہ مریضوں کو ہسپتال لایا گیا ہے جن کے ٹیسٹ لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق رواں برس اب تک بلوچستان کے 10 اضلاع سے کانگو کے 70 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 19 متاثرہ مریض کی موت ہو گئی-

کانگو وائرس کیا ہے؟

کانگو وائرس کو طب کی زبان میں کریمین ہیمریجک کانگو فیور کہتے ہیں اس سے متاثرہ مریض کو تیز بخار، سر درد، متقلی، قے، کمزوری اور منہ میں چھالے جیسی علامات ہوتی ہیں۔ تیز بخار سے جسم میں خون کے سفید خلیوں کی تعداد انتہائی کم ہو جاتی ہے اور خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس طرح متاثرہ مریض کے منہ، ناک اور جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اور اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کانگو وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین اب تک تیار نہیں ہوئی اس لیے اس مرض کو روکنا اور اس کا علاج بہت زیادہ مشکل ہے۔ اس سے اموات کا تناسب بھی بہت زیادہ یعنی 40 فیصد تک ہے۔ 

کانگو وائرس کو طب کی زبان میں کریمین ہیمریجک کانگو فیور کہتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ماہرین کے مطابق یہ وائرس بنیادی طور پر ٹک اور میویشوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ کیڑا  گائے، بھیڑ بکریوں کے جلد پر پایا جاتا ہے۔ یہ عموماً متاثرہ جانور کو ذبح کرتے ہوئے اس کے خون سے یا پھر اس وقت لگتا ہے جب یہ کیڑا انسان کو کاٹ لے۔کانگو مرض متاثرہ افراد سے قریبی رابطے اوراس کے خون اور رطوبتوں سے دوسرے انسان میں باآسانی منتقل ہوتا ہے۔
فاطمہ جناح ہسپتال کے ترجمان کے مطابق اگر فوری تشخیص کی جائے تو کانگو قابل علاج مرض ہے اس لیے تیز بخار، قے، متلی، جسم درد، کمزوری ، نقاہت جیسی علامات ظاہر ہونے پر احتیاطبی تدابیر اختیار کرتے ہوئے مریض کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کریں۔

شیئر: