Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ کے خشک پہاڑوں کو زیتون کے پودے لگا کر سرسبز کرنے کا حکومتی منصوبہ

کمشنر کوئٹہ نے بتایا کہ کراچی اور لاہور سمیت ملک بھر سے کئی کمپنیوں نے اس منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان حکومت نے کوئٹہ کے خشک پہاڑوں کو سرسبز بنانے کا تجرباتی منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکام کے مطابق کوئٹہ کے اطراف میں پہاڑی ڈھلوانوں پر زیتون کے باغات لگائے جائیں گے۔
کمشنر کوئٹہ ڈویژن محمد حمزہ شفقات نے اردو نیوز کو بتایا کہ کوئٹہ میں سبزہ اور درخت نہ ہونے کی وجہ سے مٹی اور دھول اُڑتی ہے اور بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ ’یہاں تتلیاں نظر آتی ہیں اور نہ ہی پرندے اور جانور۔ اس شہر کو درختوں کی بڑی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ چاروں طرف پہاڑ وں میں گھرا ہوا ہے مگر یہ سبھی خشک ہیں۔ کوئٹہ کی خوبصورتی میں اضافے اور ماحول کے تحفظ کے منصوبوں پر سوچ و بچار کرتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کیوں نہ ان پہاڑوں کو سرسبز بنانے پر کام کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ روایتی شجر کاری مہم کی بجائے حکومت نے زیتون کے باغات لگانے کا ایک منفرد منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کوہ چلتن، مردار اور تکتو کے پہاڑی ڈھلوانوں پر زیتون کے باغات لگائے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ماہرین، محکمہ جنگلات، محکمہ زراعت سمیت متعلقہ محکموں کے حکام سے مشاورت کی گئی ہے۔
کمشنر کوئٹہ کے مطابق اس منصوبے سے نہ صرف آلودگی کم ہوگی بلکہ معاشی فوائد بھی حاصل کیے جا سکیں گے-
ان کے بقول پتھریلی زمین زیتون کے لیے موزوں  ہوتی ہے اور اسے پانی کی ضرورت بھی کم ہوتی ہے۔ کوئٹہ میں پانی کی قلت کی وجہ سے زیتون کے درخت زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
کمشنر کے مطابق کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ کوئٹہ کے پہاڑ زیتون کے لیے شاید موزوں نہ ہو اس لیے ہم تجرباتی بنیادوں پر اس منصوبے کو چلائیں گے۔
چھ ماہ تک پودوں کی نشوونما اچھی رہی تو اس کے بعد منصوبے کو وسعت دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ زیتون کے باغات لگانے پر حکومت کوئی پیسہ خرچ نہیں کرے گی بلکہ یہ منصوبہ نجی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کی مدد سے شروع کیا جا رہا ہے۔ کاشت کاری، پانی کا بندوبست کرنے اور پودوں کی دیکھ بھال سمیت ساری ذمہ داری ان سرمایہ کاروں کی ہوگی۔

زیتون کے پھل سے تیل نکالا جاتا ہے جو عام خوردنی تیل کے مقابلے میں زیادہ صحت بخش سمجھا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت صرف انہیں مخصوص مدت کے لیے زمین کے مفت استعمال کی اجازت فراہم کرے گی تاہم زمین کی ملکیت سرکار کے ہی نام رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ زیتون کے پودے کی قیمت ایک سو سے 200 روپے کے درمیان ہے۔ ایک ایکڑ پر پودے لگانے کا خرچ تقریباً 14 ہزرروپے ہیں مجموعی طور پر پودے کو پھل دار درخت بننے تک تقریباً فی ایکڑ تین سے چار لاکھ روپے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
کمشنر کوئٹہ نے بتایا کہ کراچی اور لاہور سمیت ملک بھر سے کئی کمپنیوں نے اس منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ’ہم نے ابتدائی تین کمپنیوں کو دس دس ایکڑ اراضی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
اس سلسلے میں حکومت انہیں تکنیکی تعاون سمیت ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ عام سرمایہ کاروں کی بجائے ان اداروں اور کمپنیوں کو ترجیح دی گئی ہے جو پہلے سے اس شعبہ میں کام کر رہی ہیں اور زیتون سے تیل نکال کر اسے مارکیٹ میں فروخت اور ایکسپورٹ کر رہی ہیں۔
حمزہ شفقات نے بتایا کہ ’زیتون کا درخت پانچویں سال پھل دیتا ہے۔ سرمایہ کار اس کا پھل اور اس سے تیل نکال کر منافع کما سکیں گے۔ اس کے بدلے کوئٹہ کو درخت اور سبزہ ملے گا۔‘
ماہرین کہتے ہیں جب درخت زیادہ ہوں تو بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ منصوبہ کامیاب رہا تو خشک سالی کے خاتمے، سیلابی ریلوں کی شدت کم کرنے اور زمینی کٹاؤ کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
 محکمہ زراعت بلوچستان کے چھاپے گئے ایک معلوماتی کتابچے میں بتایا گیا ہے کہ زیتون کا پودا تقریباً ہر قسم کی زمین پر کاشت کیا جا سکتا ہے۔ ہموار زمین کے علاوہ یہ ڈھلوانوں اور پتھریلی زمین پر بھی کاشت ہو رہا ہے۔

حکام کے مطابق کوئٹہ کے اطراف میں پہاڑی ڈھلوانوں پر زیتون کے باغات لگائے جائیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں بلوچستان کا خطہ اپنی مخصوص آب و ہوا کی وجہ سے زیتون کی کاشت کے لیے مناسب ہے۔ بلوچستان میں ژوب اور شیرانی سمیت کئی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر جنگلی زیتون کی موجودگی  اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خطہ زیتون کے لیے موزوں ہے۔
زرعی تحقیقاتی ادارہ بلوچستان کے مطابق زیتون کے پودے موسم بہار یعنی فروری اور مارچ یا پھر ستمبر اور اکتوبر میں لگائے جا سکتے ہیں۔
زیتون کی سینکڑوں اقسام ہیں  تاہم کوئٹہ کا زرعی تحقیقاتی ادارہ زیتون کی 22 سے زائد اقسام پر تحقیق کررہا ہے۔ تحقیق کے مطابق زیتون کے پودوں میں خشک سالی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ زیتون کے ایک سے تین سال کے عمر کے پودوں کو شروع میں تین کے وقفے سے بعد ازاں بیس سے پچیس دنوں میں ایک بار پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سات سال سے زائد عمر کے زیتون کے درخت کو گرمیوں میں مہینے میں ایک بار اور سردیوں میں چار ماہ میں ایک بار پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
زیتون کے پھل سے تیل نکالا جاتا ہے جو عام خوردنی تیل کے مقابلے میں زیادہ صحت بخش سمجھا جاتا ہے۔ زیتون کے پھل سے اچار اور مربہ وغیرہ بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ تقریباً دو کروڑ ٹن زیتون پیدا ہوتا ہے۔ سپین سالانہ تقریباً 60 لاکھ ٹن پیداوار کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا زیتون پیدا کرنے والا ملک ہے۔
اٹلی اورمراکش دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق2021 میں سپین نے 3.9ارب ڈالر کا زیتون کا تیل برآمد کیا۔
 

شیئر: