Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں کسی پرفیوم کی خوشبو اچھی یا بُری کیوں لگتی ہے؟

جو پرفیوم ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں اسے حافظہ محفوظ کر لیتا ہے (فوٹو: پکسابے)
کیا وجہ ہے کہ ہم بعض خوشبوؤں کو پسند اور بعض کو ناپسند کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ انسان کا دماغ ہی ہے جو پسند اور ناپسند کا فیصلہ کرتا ہے۔  
اس تناظر میں قارئین کی دلچسپی کے لیے ان وجوہات کو بیان کیا جا رہا ہے جو خوشبوؤں کے حوالے سے پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی وجہ بنتی ہیں اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس پورے عمل میں دماغ کا کیا کردار ہوتا ہے۔

قوت حافظہ کا کردار؟ 

کسی بھی خاص قسم کی خوشبو کا براہ راست تعلق سونگھنے کی حس سے ہوتا ہے جو ایک طرح سے فطری یادداشت سے جڑی ہوتی ہے۔ دماغ میں موجود سونگھنے کے اعصاب  کا رابطہ براہ راست حافظے کے مرکز سے ہوتا ہے۔ 
کسی بھی بو کا تعلق یادداشت سے ہوتا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بچپن سے کسی خوشبو یا بدبو کا حافظے میں پیوست ہو جانا اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 

دماغ کا کردار؟ 

آپ اگر کوئی خوشبو ناپسند کرتے ہوں مگر مستقل بنیادوں پر اسے سونگھتے بھی رہیں تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آپ کی رائے تبدیل ہو جائے گی اور دماغ اس کے اثرات کو قبول کر لے گا اور وہ آپ کو پسند آنے لگے گی۔

پرفیوم کس طرح باعث کشش ہو سکتے ہیں؟ 

پرفیومز بنانے والی عالمی کمپنیوں کی جانب سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو پسندیدہ خوشبو مہیا کی جائے۔ اس حوالے سے کمپنیوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسی خوشبو متعارف کروائیں جو لوگوں کے حافظے میں سمائی رہے اور ہمیشہ انہیں یاد رہے۔ 
تاہم یہ مقصد حاصل کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ پسند اور ناپسند کا فیصلہ کرنے میں علاقوں اور ثقافتوں کا بہت گہرا عمل دخل ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض علاقوں میں کوئی ایک خوشبو پسند کی جاتی ہو اور وہی خوشبو کسی دوسرے علاقے کے لوگوں کو پسند نہ ہو۔  
اسی پسند اور ناپسند کے درمیان رہتے ہوئے پرفیومز بنانے والی کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم ازکم ایسی خوشبو متعارف کروائیں جو لوگوں کے بڑے طبقے میں پسند کی جائے خواہ ایک بار ہی کیوں نہ ہو۔  
اس کا مقصد یہ ہے کہ انسانی حافظے میں وہ خوشبو عرصے تک محفوظ رہے جس کی وجہ سے لوگ اس خوشبو کو حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہیں۔ 
اثرانگیز عوامل کے حوالے سے مروجہ فیشن کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بعض اوقات بڑے پیمانے پر متعارف کروائی جانے والی خوشبو لوگوں میں پسند کی جاتی ہے۔
اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ حال ہی میں متعارف کروائی گئی زنانہ پرفیومز میں پھولوں کی خوشبو غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے جبکہ مردوں میں برسوں سے ’ووڈی پرفیوم‘ جیسے عود، عنبر وغیرہ کو ترجیح دی جاتی ہے جس میں حال ہی میں کچھ پھولوں کی خوشبوئوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ 

ہمیں اپنے پرفیوم کی خوشبو کیوں نہیں آتی؟ 

کسی بھی خوشبو یا بو کا براہ راست تعلق ناک سے ہوتا ہے جس میں قدرتی طور پر لگے ہوئے حسیاتی سینسرز کا کام ان میں تفریق کرنا اور الگ الگ کرنا ہوتا ہے جس سے ہرطرح کی خوشبو کی شناخت ممکن ہو پاتی ہے۔ 

بچپن سے کسی خوشبو یا بدبو کا حافظے میں پیوست ہو جانا اہم کردار ادا کرتا ہے (فائل فوٹو: پکسابے)

ناک کے حسیاتی اعصاب یا سینسرز دماغ کو وہ سگنلز ارسال کرتے ہیں جن سے دماغ کا وہ مخصوص حصہ ان میں تفریق کر کے اعصاب کو پیغام ارسال کرتا ہے جس سے خوشبو کی درجہ بندی ممکن ہوتی ہے۔ 
جہاں تک اپنے پرفیوم کا احساس زیادہ دیر نہ رہنے کا سوال ہے تو اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقل طور پر ایک ہی خوشبو سے اعصاب ان کے عادی ہو جاتے ہیں اور اس کی فعالیت میں کمی آ جاتی ہے۔
اگر اسے یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جو پرفیوم ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں اسے حافظہ محفوظ کر لیتا ہے اور یوں اس کا احساس نہیں ہوتا۔
 اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ خوشبو جو ہم استعمال کر رہے ہیں اس کا اثر ختم ہو گیا بلکہ دماغ اس کا عادی ہو جاتا ہے جبکہ دوسرے لوگوں کو وہ فوری طور پر محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان کا دماغ اسے اسی وقت محسوس کرتا ہے جب آپ ان کے قریب ہوتے ہیں۔ 

ہم خوشبو کو دوبارہ کیسے سونگھ سکتے ہیں؟ 

وہ خوشبو جو ہماری شناخت بن گئی ہو اور اسے دماغ نے مستقل بنیادوں پر تسلیم کر لیا ہو تو اسے دوبارہ محسوس کرنے کے لیے آپ کو چاہیے کہ پرفیوم کا اسپرے جسم کے کسی دوسرے حصے یا  لباس پر کریں۔ ہوا میں بھی سپرے کیا جا سکتا ہے۔ 
یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سے زیادہ قسم کی خوشبوؤں کا بیک وقت استعمال کیا جائے، اس طرح آپ کا دماغ فوری طور پر ردعمل ظاہر کرے گا جس سے آپ کو نئی خوشبو محسوس ہو گی۔ 

شیئر: