Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کی تاریخ کے معروف ترین ٹھگ نٹور لال، جن پر فلمیں بھی بنائی گئی

نٹور لال 1996 میں ایک بار پھر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جب ان کی عمر 84 سال تھی (فائل فوٹو: 13 اینگل ڈاٹ کام)
نٹور لال انڈیا کے ان کرداروں میں سے ایک ہیں جو بہت سی کہانیوں کا موضوع بنے جب کہ بالی وڈ  نے بھی ان کے کردار پر فلمیں بنائی۔ ان کی زندگی پر بنی ایسی ہی ایک فلم میں امیتابھ بچن نے بھی کام کیا۔
ان کے گاؤں والوں کے بقول وہ رابن ہُڈ تھے مگر لوگ انہیں انڈیا کی تاریخ کا معروف ترین جعل ساز اور ٹھگ خیال کرتے ہیں جنہوں نے تاج محل کے علاوہ ایوانِ صدر، پارلیمنٹ ہاؤس اور ملک کی اہم عمارات فروخت کرنے میں بھی کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور وہ کامیاب بھی رہے۔ 
ٹھگی صرف جُرم ہی نہیں بلکہ یہ ایک فن بھی ہے
پیرس میں وکٹر لسٹنگ نامی شخص نے اگر ایفل ٹاور کو دو بار بیچا تھا تو انڈیا کے نٹور لال نے خود کو سرکاری افسر ظاہر کرتے ہوئے تاج محل کو ایک دو بار نہیں بلکہ تین بار غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا۔
پولیس دستاویزات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ نٹور لال کا پیدائشی نام متھلیش کمار سریواستو تھا اور وہ انڈیا کی شمالی ریاست بہار کے ضلع سیوان کے  بانگڑا گاؤں میں بیسویں صدی کی دوسری دہائی کی ابتدا میں پیدا ہوئے۔
کچھ دستاویزات کے مطابق وہ 1913 میں پیدا ہوئے تھے جبکہ کچھ لوگ ان کی پیدائش 1912 بتاتے ہیں۔
نٹور لال کو اپنی ناقابلِ یقین مہارت کا اس وقت ادراک ہوا جب انہوں نے اپنے پڑوسی کے جعلی دستخط  کیے۔ وہ پڑوسی انہیں اکثر اپنے بینک ڈرافٹ جمع کروانے کے لیے بینک بھیجا کرتے تھے۔ 
نٹور لال کو اُس دن یہ علم ہوا کہ بینک سے پیسے نکالنے کے لیے صرف بینک کے اکاؤنٹ ہولڈر کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر انہوں نے اپنی ٹھگی کی ابتدا اپنے پڑوسی کے 1000 روپے نکال کر کی۔
جب تک پڑوسی کو اُن کی اس دھوکہ دہی کا علم ہوتا نٹور بہار سے 1000 روپے لے کر کلکتہ کے لیے فرار ہو چکے تھے۔ کلکتہ میں انہوں نے کپڑوں کے کاروبار میں قسمت آزمائی کی، ناکامی ہوئی تو جعلی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کا 9 ٹن لوہا فروخت کر دیا۔

سنہ 1979 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مسٹر نٹور لال‘ میں امیتابھ بچن نے نٹور لال کا کردار کر نبھایا (فائل فوٹو: آئی ایم ڈی بی)

تاہم اس بار وہ پکڑے گئے اور انہیں مغربی بنگال کی پولیس نے سب سے پہلے اسی کیس میں پکڑا اور انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔
نٹور لال نے رہا ہونے کے بعد طوائفوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ وہ انہیں ایک ایسی نشہ آور چیز فروخت کیا کرتے تھے جسے ’طوائف زہر‘ کے نام سے جانا گيا۔ پولیس نے الزام عائد کیا کہ وہ طوائفوں کو منشیات کا عادی بناتے تھے اور آخر میں ان کے پیسے لے کر فرار ہو جاتے تھے۔
وہ دوسری بار پکڑے گئے لیکن اس بار انہیں جیل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔وہ ریلوے میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنے لگے اور جعلی سرکاری دستاویزات، ریلیز آرڈرز اور سامان کو غائب کرنے کے لیے چیک جاری کرتے رہے۔
کپڑے کے لین دین میں ہیراپھیری کی وجہ سے 1940 کی دہائی میں انہیں بہت شہرت حاصل ہوئی اور اخباروں میں انہیں ’ٹیکسٹائل کننگ‘ کے نام سے جانا گيا اور یہی وہ زمانہ تھا جب متھلیش کمار نامی یہ نوجوان ’نٹور لال‘ کہلایا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا عہد نٹور لال کے عروج کا دور تھا۔
سنہ 1957 میں نٹور لال نے جب کانپور جیل سے راہِ فرار اختیار کی تو یہ انڈیا کی تاریخ میں جیل توڑنے کا مقبول ترین واقعہ تھا۔

نٹور لال نے جب کانپور جیل سے راہِ فرار اختیار کی تو یہ انڈیا کی تاریخ میں جیل توڑنے کا مقبول ترین واقعہ تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 راجیو گاندھی کے دور حکومت میں اُس وقت کے وزیر خزانہ نارائن دت تیواری کے اسسٹنٹ بن کر نٹور لال دِلی کے ایک  تاجر کے پاس پہنچے اور وہاں جا کر یہ کہا کہ بیرون ملک سے آئے مہمانوں کو تحفے میں گھڑیاں دی جانی ہیں، لہٰذا انہوں نے وہاں سے 93 گھڑیاں لیں اور انہیں ایک فرضی چیک تھما کر نکل گئے۔ چیک کے فرضی ہونے کا علم نٹور لال کے جانے کے بعد ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس دوران اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ وکالت کی ڈگری بھی لی۔
اپنی قابلیت کی بنا پر نٹور لال نے سرکاری دستاویزات کی جعل سازی کی۔ انہوں نے سینکڑوں دکان داروں، جوہریوں، بینکاروں اور بیرون ملک سے آئے افراد کو لُوٹا۔ یہاں تک کہ انڈیا کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد، معروف صنعت کار ٹاٹا اور دھیرو بھائی امبانی جیسی شخصیات بھی ان کی جعل سازی سے نہ بچ سکیں۔
نٹورلال نے ان کے دستخطوں میں بھی مہارت حاصل کی۔ 50 کی دہائی کے اوائل تک ان کی جعل سازی کی داستانیں اخباروں کی زینت بننے لگی تھیں۔
انھوں نے پٹنہ، میرٹھ، الہ آباد، حیدرآباد اور ممبئی جیسے شہروں میں اپنی دھاک جما لی تھی لیکن ہر جگہ ان کی شناخت مختلف ہوا کرتی تھی۔

سرکاری دستاویز بنانا نٹور لال کے لیے مشکل نہ تھا جنہوں نے تاج محل کو تین مرتبہ فروخت کیا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

تاج محل کی فروخت
پولیس کا کہنا ہے کہ سرکاری دستاویز بنانا ان کے لیے مشکل نہیں تھا، انہوں نے اپنی اس مہارت کا اظہار تاج محل فروخت کرتے ہوئے کیا جس کی دستاویز میں تاج محل کے بارے میں تمام کاغذات موجود تھے۔
انہوں نے اس طرح تین مرتبہ تاج محل کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا اور اپنی ماہرانہ صلاحیت کی وجہ سے اس معاملے میں کبھی پولیس کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔
انہوں نے بنیادی طور پر تاج محل کو تین بار، لال قلعہ کو دو بار، راشٹرپتی بھون یعنی ایوان صدر کو ایک بار اور انڈین پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ اس کے 545 ارکان کو انڈیا کے صدر راجندر پرساد کے  فرضی دستخط نقل کر کے غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچ دیا۔
نٹور لال 8 ریاستوں میں 100 سے زیادہ پولیس مقدمات میں مطلوب تھے۔ ریاست بہار کے دربھنگہ ضلع کی عدالت نے انہیں 17 سال کی سزا سنائی، سنگھ بھوم کی عدالت نے انہیں 19 سال کی سزا سنائی، پٹنہ کے جج نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی۔ ان 14 فیصلوں میں ان کی مجموعی سزا 113 سال بنتی ہے۔

 نٹور لال 8 ریاستوں میں 100 سے زائد مقدمات میں مطلوب تھے اور انہیں 14 فیصلوں میں 113 سال سزا ہوئی (فائل فوٹو: پِکس ہیئر)

متعدد جرائم میں مطلوب نٹور لال جیل میں جانے کے بعد بھی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے تھے اور پھر اخباروں کی سُرخیاں جہاں لوگوں میں سنسنی پیدا کرتیں وہیں پولیس کی ناکامی کا اشتہار بھی ہوتی تھیں۔
جیل سے ہر بار منفرد طریقے سے فرار ہونے کے ہُنر کی بدولت انہوں نے اپنی سزا کے بمشکل 20 سال ہی جیل میں گزارے۔ انہیں مجموعی طور پر نو بار گرفتار کیا گیا اور ہر بار وہ اپنے گرفتار کرنے والوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہے۔
سنہ 1957 میں نٹور لال نے جب کانپور جیل سے راہِ فرار اختیار کی تو یہ انڈیا کی تاریخ میں جیل توڑنے کا مقبول ترین واقعہ تھا۔ انہیں آخری بار 1987 میں گرفتار کیا گیا اور 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
وہ 1996 میں ایک بار پھر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جب ان کی عمر 84 سال تھی۔ ٹانگوں سے معذور ہونے کی وجہ سے پولیس انہیں علاج کے لیے کانپور جیل سے دِلی کے مشہور ہسپتال ایمس لے جا رہی تھی کہ دِلی سٹیشن پر پولیس افسر یہ سوچ کر کسی کام میں مصروف ہو گئے کہ ایک معذور کیا بھاگ سکے گا۔
 لیکن انجام کار انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ وہ ایک بار پھر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔

سنہ 2014 میں ریلیز ہونے والی فلم ’راجا نٹور لال‘ میں عمران ہاشمی نے مرکزی کردار ادا کیا (فائل فوٹو: یُو ٹی وی موشن پکچرز)

وہ ایک بار پولیس افسر کی وردی چُرا کر پولیس انسپکٹر کا لباس پہن کر جیل سے فرار ہوئے تھے۔
کبھی تو اپنی کال کوٹھری کے گارڈ کو رشوت دے کر جیل کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو جاتے تو کبھی کسی اور طریقے سے۔ جیل سے فرار ہونے کے بعد متھلیش اکثر یہ کہا کرتے کہ کوئی بھی جیل انہیں روک نہیں سکتی کیونکہ وہاں ہمیشہ ایک بے ایمان پولیس والا ہوتا ہے۔
نٹور لال کی اس دھوکہ دہی کے فن نے بالی وڈ کی تین فلموں کو متاثر کیا، دو فلمیں تو ان کے نام پر ہی بنائی گئیں۔ 1979 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مسٹر نٹور لال‘ میں تو امیتابھ بچن نے ان کے کردار کو نبھایا جبکہ دوسری فلم 2014 میں ریلیز ہوئی جس کا نام ’راجا نٹور لال‘ تھا اور اس میں عمران ہاشمی نے ان کا کردار ادا کیا۔
اس فلم کا مکالمہ نٹور لال کی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ ’میں پیدائشی 420 ہوں، جمورا نہیں، کرتب دِکھا کر ہاتھ نہیں پھیلاتا، جال پھیلاتا ہوں اور پھر اس جال پر مال۔‘
ایسی ہی ایک اور فلم ’بنٹی اور ببلی‘ بھی اُن سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔ اس فلم میں امیتابھ کے بیٹے ابھیشیک بچن نے نٹور لال کا کردار ادا کیا تھا۔

نٹور لال نے تاج محل کے علاوہ ایوانِ صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس بیچنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

نٹور لال کو صرف نٹور لال بولنے پر ناراض گاؤں والے
نیوز چینل ’آج تک‘ نے 2009 میں جب ان کے گاؤں کا دورہ کیا تو ایک رپورٹر کے بار بار نٹور لال کہنے پر مقامی افراد ناراض ہو گئے اور سخت لہجے میں اُنہیں نام سے پہلے مسٹر لگانے کی تاکید کی۔ گاؤں والے اُنہیں (نٹور لال کو) رابن ہُڈ کی طرح دیکھتے ہیں اور ان کا مجسمہ نصب کرنے کی مانگ کرتے ہیں۔
نٹور لال 1996 کے بعد دوبارہ 2009 میں اس وقت شہ سرخیوں میں آئے جب اُن کے وکیل نے اُن کی موت کے بعد اُن کے سارے مقدمات کو بند کرنے کی عرضی ڈالی۔
وکیل کا کہنا تھا کہ ’اُن کی موت 25 جولائی 2009 کو ہوئی‘ جب کہ ان کے بھائی کا دعویٰ تھا کہ ’انہوں نے 1996 میں رانچی میں اپنے بھائی کی آخری رسومات ادا کی تھیں۔‘ بہرحال اُن کی زندگی کی طرح اُن کی موت بھی ایک راز ہے جس سے کبھی پردہ نہیں اُٹھ سکا۔

شیئر: