کشمیری بمقابلہ آرائیں: جب علامہ اقبال کو انتخابات میں برادری ازم کا سامنا کرنا پڑا
کشمیری بمقابلہ آرائیں: جب علامہ اقبال کو انتخابات میں برادری ازم کا سامنا کرنا پڑا
جمعرات 9 نومبر 2023 10:31
سید صفدر گردیزی، صحافی۔ اسلام آباد
آج سے 97 برس قبل علامہ اقبال لاہور کی انتخابی سیاست کے اکھاڑے میں اُترے (فوٹو: علامہ اقبال ڈاٹ کام)
پاکستانی سیاست میں برادری اور نسلی عصبیت انتخابات میں حمایت یا مخالفت کے ایک محرک کے طور پر ہمیشہ موجود رہی ہے۔ پنجاب کی سیاسی حرکیات میں برادری اور دھڑے سے وابستگی دیہی اور شہری دونوں حلقوں میں ہار اور جیت کا اہم عنصر مانا جاتا ہے۔
لاہور کی سیاسی روایات، انتخابی رویے اور مقابلے بازی کا رنگ ڈھنگ الیکشن کی تاریخ میں علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ آج سے 97 برس قبل علامہ اقبال اسی لاہور کی انتخابی سیاست کے اکھاڑے میں اُترے۔
ان کی انتخابی مہم میں وہ تمام روایتی سیاسی کشمکش اور حریفانہ داؤ پیج شامل تھے جو آج کی سیاست کا خاصہ ہیں۔ شاعر، فلسفی اور مصلح کے طور پر ہندوستان بھر میں شہرت رکھنے والے اقبال نے 1926 میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کی ممبرشپ کے چناؤ میں بطور اُمیدوار حصہ لیا۔
ان کی قد آور شخصیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مخالفین نے انتخابات کو لاہور کی دو برادریوں کا مقابلہ بنانے کی کوشش کی۔
کشمیری بمقابلہ آرائیں
علامہ اقبال لاہور شہر اور چھاؤنی کے مسلم انتخابی حلقے سے امیدوار تھے۔ لاہور کے نمایاں مسلم رہنما انہیں بلا مقابلہ منتخب کروانا چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
ان کے مد مقابل تین امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے۔ ان میں بلدیہ لاہور کے صدر اور سیاسی اور سماجی رسوخ رکھنے والے ملک محمد حسین ،بیرسٹر عبدالعزیز اور ایک اور قانون دان بیرسٹر ملک محمد دین شامل تھے۔
دوسری طرف کانگرس کے صدر پنڈت موتی لال نہرو نے ہندوؤں کے حلقوں سے نمایاں رہنماؤں پنڈت مدن لال مالویہ اور لالہ لاجپت رائے کو بلا مقابلہ منتخب کروا لیا تھا۔
پنجاب سے دیگر مسلم رہنما اور سیاسی کارکن لاہور کے اس انتخابی معرکے میں حصہ ڈالنے پہنچ گئے جن میں راجہ غظنفر علی خان، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، چوہدری فضل حق ، حفیظ جالندھری اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے۔
’اقبال ان پولیٹکس‘ کے مصنف حفیظ ملک کے مطابق اقبال کی الیکشن مُہم نے اُس وقت زور پکڑا جب بیرسٹرعبدالعزیز نے اپنے کاغذات واپس لے کر ان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
انتخابی جلسے جلوس اپنے زوروں پر تھے۔ اقبال کے ایک اور حریف ملک محمددین بار ایٹ لا نے جب دیکھا کہ لوگوں کی ہمدردیاں اور قبولیت اقبال کے لیے بڑھتی جا رہی ہے انہوں نے ’کشمیری‘ اور ’آرائیں‘ کا سوال اٹھانا شروع کر دیا۔
انتخابات کے سلسلے میں لاہور میں کشمیری اور ارائیں کا سوال کوئی نیا نہیں تھا۔ اکثر مقامی انتخابات میں دونوں برادریوں سے حصہ لینے والے افراد اپنے قبیلہ کے تعصب کو استعمال کرتے رہتے تھے۔
علامہ اقبال اوائل میں ’انجمن کشمیری مسلمانان لاہور‘ سے وابستہ رہ چکے تھے مگر الیکشن میں انہوں نے برملا اعلان کیا کہ ’جو لوگ مجھے کشمیری سمجھ کر پرچیاں دینے کے آرزومند ہیں وہ ایسا نہ کریں‘ مگر ملک دین محمد اور ان کے حامیوں نے اقبال کو کشمیری برادری کا نمائندہ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔
لاہور کی سماجی، سیاسی اور کاروباری زندگی میں دونوں برادریوں کے نمایاں افراد سرگرم کردار ادا کرتے رہے تھے۔
لاہور میں آرائیں برادری کے مشہور رہنما اور پنجاب مسلم لیگ کے صدر میاں محمد شفیع تھے۔ انہوں نے اپنی برادری کو سماجی طور پر منظم اور مقبول بنانے کی کاوشیں کی۔ موھنی روڈ پر ’آرائیں ہاؤس‘ قائم کیا اور ’الراعی‘ کے نام سے برادری کے لیے ایک رسالہ بھی شائع کیا۔
ان کے کزن جسٹس شاہ دین لاہور ہائی کورٹ کے پہلے مسلم جج تھے۔ ان کی بیٹی جہاں اراء شاہنواز پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی خاتون ممبر تھیں۔ حفیظ ملک کے مطابق مسلم لیگ جداگانہ اور مخلوط انتخابات کے معاملے پرجب جناح اور شفیع لیگ میں تقسیم ہوئی تو علامہ اقبال شفیع لیگ کا حصہ تھے۔
حیرت انگیز طور پران انتخابات میں میاں محمد شفیع کسی امیدوار کی حمایت یا مخالفت میں سامنے نہیں آئے۔
لاہور میں ان دنوں یہ تاثر عام تھا کہ علامہ اقبال کے مخالف امیدوار کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس شادی لال کی خفیہ حمایت بھی حاصل ہے۔
ملک محمد دین کی برادری کے نام پر ووٹ مانگنے کی بھرپور مہم کا جواب دینے کے لیے اقبال کے حامیوں نے 23 اکتوبر 1926 کو بیرون دلی دروازہ جو جلسہ منعقد کیا اس کی صدارت آرائیں برادری کی ایک نمایاں شخصیت میاں معراج الدین کر رہے تھے۔
اسی جلسے میں خلافت کمیٹی کے الیکشن بورڈ کے رہنماؤں نے اقبال کی حمایت کا اعلان کیا۔ ان کے مخالفین کے لیے اصل سرپرائز انتخابی مقابلے کے تیسرے امیدوار ملک محمد حسین کا اقبال کے حق میں مقابلے سے دستبرداری کا اعلان تھا۔
ان کے سیاسی مخالفین کسی صورت ہار ماننے کو تیار نہ تھے۔ سیاسی حربے کے طور پر انہوں نے لاہور کی ایک با اثر قانونی اور صحافتی شخصیت خان بہادر مولوی محرم علی چشتی کو اپنا ہم نوا بنا لیا۔
انتخابی نعرے، جلوس اور پراپیگنڈہ
اقبال کے حامیوں اور مخالفین میں سیاسی برتری کے لیے وہ تمام طریقے اور حربے استعمال کیے گئے جو آج بھی سیاسی جنگ جیتنے کے لیے ضروری خیال کیے جاتے ہیں۔
’اقبال اور پنجاب کونسل‘ کے مصنف حمید شاہد نے اس انتخابی مہم کی گہما گہمی اور ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے طریقوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
علامہ اقبال کے خلاف 14 اشتہارات شائع کیے گئے۔ ان کا انداز اور اسلوب الزام تراشی اور بہتان طرازی پر مبنی تھا جس کا جواب اقبال کے حامیوں نے جوابی اشتہارات شائع کروا کر دیا۔
مسجد وزیر خان کے امام مولوی دیدار علی شاہ اقبال کی نظم شکوہ اور جواب شکوہ کی وجہ سے ان سے نالاں تھے۔ وہ بھی موقع غنیمت جان کر اقبال کی مخالفت میں صف آرا ہو گئے۔
سیاسی مخالفین کے آبائی علاقوں میں جلسہ جلوس کر کے نفسیاتی برتری حاصل کرنا آج بھی انتخابی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
اس وقت اقبال کے انتخابی حلیفوں نے اپنے دو مخالفین کے گھروں کے قریب سیاسی طاقت کا اظہار جلسے جلوسوں سے کیا۔
فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال کی تصنیف ’زندہ رود‘ کے مطابق مولوی دیدار علی شاہ مسجد وزیر خان کے عقب میں جبکہ ملک محمد دین چوہٹہ مفتی باقر میں رہائش پذیر تھے۔ ان دونوں جگہوں پر علامہ اقبال کے جلسوں میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
انتخابی ترانے اب ہر الیکشن مہم کا لازمی جزو بن گئے ہیں۔ اقبال کی الیکشن مہم بتاتی ہے کہ لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کے لیے شاعری کا استعمال اس دور میں بھی عام تھا۔
علامہ اقبال کے جلسوں میں ملک لال دین قیصر، استاد عشق اور استاد گام اپنی مترنم اواز میں نظمیں پڑھتے تھے جن میں مخالفین پر لطیف طنز شامل ہوتا تھا۔
لاہور کے صحافی علامہ اقبال کی حمایت میں پُرجوش نظمیں اور اداریے لکھ رہے تھے مگر لاہور کے دو اخبارات نے اقبال کے مخالفین کا ساتھ دیا۔ ’سیاست‘ اور ’نشتر‘ دونوں کے مالکان کشمیری برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
پولنگ جھگڑے اور جعلی ووٹ
23 اور 24 نومبر 1926 کو لاہور کے مختلف مقامات پر ووٹ ڈالے گئے۔ اس انتخابی مہم میں شریک ایک سیاسی کارکن اشرف عطا اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اقبال کے لیے لاہور کی سڑکوں پر یہ نعرہ گونج رہا تھا ’پتلون پوش ولی کو یاد رکھنا۔‘
روایتی الیکشن کی طرح ان انتخابات میں بھی حریفوں کے درمیان مار کٹائی اور ہاتھا پائی کے واقعات بھی ہوئے۔ ان ہنگاموں کے بارے میں روزنامہ زمیندار نے لکھا کہ ’فریقین کے حامیوں میں ہنگامہ ہو گیا۔ ایک شخص نے اپنے مدّ مقابل پر چاقو سے وار کیا۔ چاقو مارنے والے کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ملک محمد دین کا حامی تھا جبکہ دیگر اسے اقبال کا حامی بتاتے ہیں۔‘
جعلی ووٹ بھگتانے کا الزام ہر الیکشن میں سامنے آتا ہے۔ پرانے وقتوں کے یہ انتخابات بوگس ووٹ ڈالنے کے واقعات سے پاک نہ تھے۔
زمیندار اخبار میں رپورٹ کیا کہ ’ملک محمد دین کے بھائی نظیر احمد کو پولیس نے گرفتار کیا۔ انہوں نے اقبال کے ایک پولنگ ایجنٹ کا ووٹ دھوکہ دہی سے ڈلوانے کی کوشش کی تھی۔‘
اقبال سپیکر کیوں نہ بن سکے؟
پولنگ کے دس دنوں بعد نتائج کا اعلان ہوا۔ کل 12 ہزار لوگوں میں سے اٹھ ہزار 400 افراد نے ووٹ پول کیا ۔علامہ اقبال نے 5675 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے حریف کو 2698 ووٹ ملے۔
علامہ اقبال کی جشن فتح کا جلوس پرانی انار کلی سے بھاٹی گیٹ تک نکالا گیا۔ اس کے اگے بھنگڑا ڈالنے والوں میں میاں صلاح الدین (علامہ اقبال کے داماد ) اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے والد ایم ڈی تاثیر بھی شامل تھے۔
جنوری 1927 میں باقاعدہ حلف اٹھا کر وہ ممبر بن گئے۔ تین برس تک وہ اس ہاؤس کے ممبر رہے۔ ان کے قریبی دوست عبدالمجید سالک اپنی کتاب ’ذکرِ اقبال‘ میں ان کی سیاسی زندگی کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
پنجاب کونسل میں سر فضل حسین کی یونیسیسٹ پارٹی کو اکثریت حاصل تھی۔ وہ اقبال کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے خواہشمند تھے۔ ان کے بیٹے اپنے باپ کے بارے میں کتاب میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد نے تجویز پیش کی کہ کونسل کے سپیکر(صدر) چوہدری شہاب الدین کی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد یونیسسٹ پارٹی علامہ اقبال کو صدر منتخب کر لے۔
ان کے بقول اقبال پارٹی پالیسی پر تنقید کرتے تھے۔ اخبارات میں ان کے خلاف لکھنے کی وجہ سے یونیسسٹ پارٹی کے اراکین نے ان کی حمایت سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اقبال کے بجائے شہاب الدین کو دوبارہ سپیکر منتخب کر لیا۔
’اقبال ان پولیٹکس‘ کے مطابق اقبال کونسل میں تنہا ممبر تھے جنہوں نے کسی پارٹی کی حمایت نہ کی۔ شروع میں خیال کیا جا رہا تھا کہ آزاد ممبران پر مشتمل گروپ تشکیل دیا جائے گا جس کی سربراہی اقبال کے حصے میں آئے گی مگر ایسا نہ ہوا۔
علامہ اقبال تین سال تک کونسل کے ممبر رہے۔ یہ کسی سیاسی اور انتخابی ادارے کی پہلی اور آخری رکنیت تھی۔
ان کے داماد میاں صلاح الدین صلو تین بار قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ صوبائی وزیر بھی بنے۔
فرزند اقبال جاوید اقبال نے 1970 کے الیکشن میں لاہور کے حلقے سے ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں شکست کھائی۔ ان کے بیٹے ولید اقبال پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سینٹ اف پاکستان کے ممبر ہیں۔
لاہور میں آرائیں اور کشمیری سیاسی چپقلش نے کئی رنگ بدلے۔ پاکستان کے ہر الیکشن میں دونوں طرف سے کئی نامور سیاسی رہنما قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر بنتے رہے ہیں۔
تین بار وزیراعظم پاکستان بننے والے مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کسی دور میں اسی کشمیری انجمن کے صدر رہ چکے ہیں جس کے سیکریٹری کسی دور میں علامہ اقبال ہوا کرتے تھے۔