Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان سے جبری بے دخل افغانوں کی کسمپرسی میں زندگی کی نئی شروعات

عبدالشکور کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو اتنی جلدی میں چھوڑنا اُن کے لیے کافی مشکل تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد میں زندگی کے آٹھ سال گزارنے کے بعد عبدالشکور نے اپنا تمام سامان جلدی سے سمیٹا جو اس کا خاندان اپنے ساتھ لے جا سکتا تھا۔
پاکستان بھر میں بغیر دستاویزات کے رہائش پذیر غیر ملکی شہریوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں گذشتہ ہفتے مجبوراً افغانستان واپس جانا پڑا۔
عرب نیوز کے مطابق شکور کی والدہ، اہلیہ اور چار بچے ان لاکھوں افغانوں میں شامل تھے جو رواں سال اکتوبر سے اپنے آبائی ملک جانے کے لیے سرحد پر پہنچ رہے ہیں۔
پاکستانی حکام نے انہیں رضاکارانہ طور پر افغانستان جانے کا حکم دے رکھا ہے بصورت دیگر انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگرچہ اس فیصلے کا اطلاق ملک میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تمام غیر ملکیوں پر ہوتا ہے، تاہم ان میں سب سے زیادہ متاثر افغان ہوئے ہیں کیونکہ کل 40 لاکھ میں سے 17 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان پاکستان میں رہائش پذیر تھے۔
سنہ 1979 میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان پر حملے اور کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے مختلف تنازعات کی وجہ سے لاکھوں افغان ملک چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ کئی برسوں کے دوران کچھ افغان ملک میں واپس آگئے جبکہ بعض افغانستان چھوڑ گئے۔
ان میں سے زیادہ تر افغان 2021 میں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج کے انخلا اور پھر طالبان کی جانب سے جنگ زدہ ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے۔
تاہم افغان حکام کے اندازے کے مطابق ’اکتوبر سے تقریباً چار لاکھ افغان پاکستان سے اپنے ملک واپس پہنچ چکے ہیں۔‘
عبدالشکور نے کابل جانے کا فیصلہ کیا جہاں اُن کی ہمشیرہ رہتی ہیں اور اُن کے اہل خانہ بھی اسی کمرے میں ان کے ساتھ رہائش اختیار کریں گے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہم کابل پہنچے ہیں اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘

افغان وزارتِ مہاجرین واپس آنے والے خاندانوں کو جو رقم دے رہی ہے وہ ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’پاکستان کو اتنی جلدی میں چھوڑنا کافی مشکل تھا۔ پاکستانی حکومت کو ہمیں ملک چھوڑنے کے لیے کم سے کم پانچ سے چھ ماہ کا وقت دینا چاہیے تھا۔‘
 ان کے مطابق ’ایسا نہیں ہوا۔ ہم افغانستان کی موجودہ حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیں رہائش اور روزگار مہیا کرے، اور کچھ نہیں۔‘
افغان انتظامیہ نے وطن واپس آنے والوں کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم اسے خود پہلے ہی تباہ حال معیشت کا سامنا ہے۔ 
طالبان کی جانب سے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغانستان بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہے اور ملک میں بے روزگاری کی شرح دوگنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
اگرچہ افغان وزارتِ مہاجرین واپس آنے والے خاندانوں کو نقد رقم دے رہی ہے، تاہم یہ ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔

شیئر: