اتوار کے روز جاری کی گئی تحقیق میں پاکستانی عوام کے تاریخی، سماجی و معاشی اور عمومی رویوں پر مبنی پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے۔
پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق یہ نتائج ملک کے مختلف حصوں بشمول بالائی و جنوبی پنجاب، اسلام آباد، راولپنڈی، بہاولپور اور ملتان میں مختلف تجزیاتی طریقوں سے منعقد کیے گئے قومی سروے سے اخذ کیے گئے ہیں۔
عدالتوں میں مقدمات کا التوا اور سیاسی اثرورسوخ باعثِ تشویش
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شہریوں کے عدلیہ پر اعتماد نہ کرنے کی بنیادی وجہ مقدمات کا التوا اور عدالتوں پر مبینہ سیاسی اثرورسوخ ہے۔
پاکستان کی عدالتوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ زیرِ التوا مقدمات کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور یہ مقدمات عدالتوں اور عوام کے درمیان دُوریاں بڑھا رہے ہیں۔
صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کو 55 ہزار سے زائد زیرِ التوا مقدمات کو نمٹانے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ماہرین قانون کے مطابق عدالتی نظام میں مشہور مقدمات کی جلد سماعت کا بڑھتا کلچر عام مقدمات کے التوا کا باعث بن رہا ہے۔
سابق صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے اس بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عدلیہ میں مقتدر حلقوں کی مداخلت اُن کے معیار کو گرانے کا سبب بنی ہے۔‘
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ذوالفقار بھٹہ کے مطابق ’عدالتوں پر عوام کے اعتماد نہ کرنے کی بڑی وجہ سُست روی کے علاوہ عدلیہ میں سیاسی تعیناتیاں بھی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ہی ایڈووکیٹ جنرل یا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدوں میں تبدیلیاں اس تاثر کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔‘
عدالتی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر عدلیہ کو عوام میں کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنا ہے تو سیاسی اور مشہور مقدمات کے علاوہ عوامی مقدمات کو بھی بڑی عدالتوں میں جگہ دینا ہو گی۔
اشرافیہ کا تحفظ پولیس پر عدم اعتماد کی بڑی وجہ
پائیڈ کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ عدلیہ کے بعد عوام نے سب سے زیادہ پولیس پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے۔
پولیس پر اعتماد نہ کرنے کی وجہ عوام کے بجائے حکمران اشرافیہ کی خدمت اور جان مال کی حفاظت کو ترجیح دینا ہے۔
تحقیق کے دوران فوج کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں لوگوں نے کہا کہ اگر فوج سیاسی، حکومتی اور معاشی امور پر اثرانداز نہ ہو تو یہ قابل اعتماد ہے۔
سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا اس بارے میں کہتے ہیں کہ پاکستان میں حکومتی ادارے آج تک عوامی توقعات پر پورا اُترنے میں ناکام رہے ہیں.‘
’حکومتی اداروں کے مقابلے میں فوج اپنے نسبتاً بہتر نظم وضبط کی وجہ سے کسی حد تک عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔‘
ان کے مطابق ’قیام پاکستان سے اب تک سول اداروں کو بہتر نہیں کیا گیا۔ پولیس اور دیگر حکومتی اداروں کے بنیادی ڈھانچوں کے مسائل ہیں۔‘
عامر ضیا کہتے ہیں کہ ’عوام سمجھتے ہیں کہ پولیس کے بجائے یا سول حکومت کے بجائے فوج سے اپنے مسائل حل کروائیں۔ اس کی بنیادی وجہ سول اداروں کا ترقی پذیر اور بدعنوانی میں ملوث ہونا ہے۔‘
عامر ضیا نے مزید کہا کہ ’حکومتی اداروں میں ادارہ جاتی اصلاحات اور میرٹ پر تعیناتیاں اُن پر عوام کا اعتماد بحال کر سکتی ہیں۔‘