Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیرملکی کمپنیوں نے پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر تلاش کرنے سے انکار کیوں کر دیا؟

پاکستان میں اس وقت بھی گیس کے ذخائر 150 ٹریلین کیوبک فیٹ ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستان میں تیل و گیس نکالنے کے لیے مناسب سہولیات کی عدم فراہمی اور سکیورٹی مسائل کی وجہ سے بیشتر غیرملکی کمپنیاں منصوبے چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ اس وجہ سے پیداوار میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ 
وفاقی حکومت کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ کچھ برسوں میں 10 کے قریب بین الاقوامی پیٹرولیم کمپنیوں نے پاکستان میں تیل تلاش کرنے کے بڑے منصوبے بند کیے ہیں۔
اس وجہ سے مقامی سطح پر تیل و گیس کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور پاکستان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اربوں ڈالر کا اضافی تیل درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان میں اس وقت بھی 27 ارب بیرل تک تیل کے ذخائر موجود ہیں جبکہ گیس کے ذخائر 150 ٹریلین کیوبک فیٹ ہیں۔ تاہم ان کو نکال کر قابل استعمال بنانے کے لیے درکار مہارت نہ ہونے اور بین الاقوامی کمپنیوں کے موجودہ حالات میں کام سے انکار کی وجہ سے ملکی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچ رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ ذخائر نہ نکالنے کی وجہ سے پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر سات فیصد تک کمی ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تیل کی سالانہ پیداوار 38 کروڑ بیرل سے کم ہوکر کر 19 کروڑ بیرل اور گیس کی یومیہ پیداوار 2800 ایم ایم سی ایف ڈی پر آ گئی ہے۔ خیال رہے کہ نو برس قبل ملک میں گیس کی یومیہ پیداوار 4400 ایم ایم سی ایف ڈی تھی۔

تیل و گیس کی تلاش کم کیوں ہوئی؟

وزارت پیٹرولیم کے اعلٰی حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان میں تیل اور گیس نکالنے کا شعبہ گذشتہ برسوں میں تنزلی کا شکار رہا ہے۔ نئے ذخائر دریافت کرنے کے لیے کام کی ضرورت تھی لیکن اس پر توجہ نہیں دے گئی۔ 
حکام کے مطابق اس وقت ملک میں 22 ملکی اور غیرملکی کمپنیاں تیل و گیس کی تلاش پر کام کر رہی ہیں۔ سنہ 2010 سے اب تک پاکستان سے 10 غیرملکی ایکسپلوریشن کمپنیاں کام چھوڑ کر جا چکی ہیں۔
یہ کمپنیاں پاکستان میں کاروبار کا مناسب ماحول نہ ہونے، امن و امان کے مسائل اور تیل و گیس کی قیمتوں کا درست تعین نہ ہونے کے باعث بھی مسائل کا شکار رہی ہیں۔

گذشتہ کچھ برسوں میں 10 کے قریب بین الاقوامی پیٹرولیم کمپنیوں نے پاکستان میں تیل تلاش کرنے کے بڑے منصوبے بند کیے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان کے سابق سیکریٹری پیٹرولیم اور توانائی امور کے ماہر جی اے صابری کے مطابق پاکستان کو بین الاقوامی پیٹرولیم کمپینوں کو کام کرنے کے بہتر حالات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نائجیریا میں بھی تیل و گیس کی کمپنیوں کو سکیورٹی خدشات سمیت دیگر مسائل کا سامنا تھا جن پر اب قابو پا کر نائجیریا تیل و گیس کے مقامی ذخائر استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کو بھی کمپنیوں کے سکیورٹی اور دیگر مسائل کا سدباب کرنا چاہیے۔‘
جی اے صابری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے تیل و گیس کے ذخائر والے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو حقوق کی عدم فراہمی اور سیاسی مسائل کی وجہ سے بھی وہاں کمپنیوں کے لیے کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔
’وزیرستان اور بلوچستان سے تیل و گیس تو نکالی جا رہی ہے مگر وہاں کے لوگوں کے مسائل نہیں حل کیے جا رہے۔ پاکستان کو اس معاملے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

حکومتی پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت

توانائی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ تیل و گیس کے مقامی ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمپنیوں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی پالیسیوں میں تسلسل کی بھی ضرورت ہے۔

جے اے صابری کے مطابق پاکستان کو بین الاقوامی پیٹرولیم کمپینوں کو کام کرنے کے بہتر حالات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ماہر توانائی اور سابق ممبر اوگرا محمد عارف کے مطابق پاکستان میں تیل و گیس کے 70 فیصد ذخائر ابھی ایکسپلور ہی نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہر حال میں تیل و گیس کی تلاش میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
محمد عارف کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے پاس بڑے پیمانے پر تیل کے کنویں کھودنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن تیل و گیس کی تلاش جاری رکھنا نہایت ضروری ہے۔‘
’دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں تیل و گیس کی کامیاب ایکسپلوریشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ دیگر ممالک میں تیل و گیس کے کنوؤں میں اگر آپ پانچ کنویں کھودیں تو ایک سے تیل و گیس نکلے گا۔ پاکستان میں اگر تین کنوؤں کی کھدائی کریں تو ایک میں سے تیل و گیس نکل آتا ہے۔‘

تیل کی تلاش کے لیے حکومتی اقدامات

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک برس کے دوران تیل و گیس کی مد میں تقریباً 18 ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوا۔
پاکستان میں خام تیل کی سالانہ کھپت 10 سے 11 ملین ٹن ہے۔ جس میں تین ملین ٹن خام تیل مقامی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ باقی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت سے درآمد کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیل کی سالانہ پیداوار 38 کروڑ بیرل سے کم ہوکر کر 19 کروڑ بیرل تک آ گئی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

وزارت پیٹرولیم کے ایک ترجمان نے غیرملکی کمپنیوں کے پاکستان سے واپس جانے اور تیل و گیس کی پیداوار کم ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں بتایا کہ ’کچھ کمپنیوں کو تیل کی پیداوار کے منافعے کی شرح اور سکیورٹی معاملات پر تحفظات تھے، اس وجہ سے ان کی سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوا۔‘
تاہم ترجمان کے مطابق اب حکومت پیداوار میں اضافے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں مقامی اور غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ مختلف بلاکس میں کنووں کی کھدائی کے لیے بات چیت ایک باقاعدہ عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت ٹائٹ گیس پالیسی، آنشور بلاکس اور آفشور بلاکس پر کام کے لیے بولی شروع کروانے کے اقدامات کر رہی ہے اور اس پر جلد مثبت نتائج کی توقع ہے۔‘

شیئر: