سردیوں میں پاکستان میں گیس کا بحران کیوں اور اس کا حل کیا ہے؟
سردیوں میں پاکستان میں گیس کا بحران کیوں اور اس کا حل کیا ہے؟
جمعہ 24 دسمبر 2021 17:50
اے وحید مراد -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان میں صرف 25 فیصد آبادی کو پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس فراہم کی جاتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور توانائی کے شعبے کے ماہرین کے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں اور سردی میں اضافے کے ساتھ ملک میں گیس بحران میں شدت آ گئی ہے۔
حکومتی وزرا اور مشیر کئی ماہ تک یہ کہتے رہے کہ درآمدی ایل این جی سے گیس کے بحران کو پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا تاہم وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ نومبر میں قوم سے خطاب کے دوران رواں سال موسم سرما میں ملک میں گیس کی کمی کی پیش گوئی کی تھی۔
جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے تسلیم کیا کہ ملک میں گھریلو صارفین کو گیس کی کمی کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے فیصلے کے تحت سردیوں میں دیگر شعبوں سے گیس کی سپلائی گھریلو صارفین کی جانب موڑ دی جاتی ہے۔ ’رواں سال ہم ایسا نہیں کر پائے کیونکہ سندھ ہائیکورٹ نے صنعتی شعبے کو گیس کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے حکمِ امتناعی دے رکھا ہے۔‘
وفاقی وزیر توانائی نے گیس بحران کی دوسری وجہ قدتی گیس ذخائر میں کمی کو قرار دیا۔ ’پاکستان میں ہر برس سردیوں میں گیس کی قلت اس لیے ہوتی ہے کہ قدرتی گیس کے ذخائر سالانہ نو فیصد کم ہو رہے ہیں جبکہ طلب بڑھتی جا رہی ہے۔‘
یہ جاننے کے لیے کہ گیس کے موجودہ بحران کی وجہ کیا ہے اور مسئلے کا حل کیسے ممکن ہے، اردو نیوز نے توانائی کے شعبے سے منسلک ماہرین اور دہائیوں سے انرجی سیکٹر کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافیوں کے سامنے یہ سوال رکھے۔
انگریزی روزنامے ڈان سے وابستہ خلیق کیانی نے گیس بحران کی ایک وجہ حکومتوں کی جانب سے نئے گھریلو کنکشنز کو قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وجہ لامحدود کنکشنز ہیں جو ہر حکومت نے دیے۔ اس وجہ سے گیس کی سالانہ 250 ملین مکعب فٹ نئی ڈیمانڈ پیدا کی جا رہی ہے۔‘
گیس کے شعبے کے ماہر اور عارف حبیب لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ قدرتی گیس کے ذخائر میں کمی حالیہ بحران کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ’ملکی ذخائر کم ہو رہے ہیں اور گزشتہ 15 برس میں تیل و گیس کا کوئی نیا ذخیرہ دریافت نہیں ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ ملکی پیداوار چار ہزار 200 بلین مکعب فیٹ تھی جو کم ہو کر تین ہزار 300 رہ گئی ہے۔ ’ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے تو شارٹ فال بھی بڑھ رہا ہے۔‘
خلیق کیانی نے بتایا کہ ’قدرتی گیس کے ملکی ذخائر میں کمی کی بات درست ہے۔ اس کمی کو اگر سالانہ نئی ڈیمانڈ سے ملا کر دیکھا جائے تو یہ شارٹ فال یومیہ 400 ملین مکعب فٹ ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے وزیر توانائی کے اس مؤقف کو درست قرار دیا کہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں گیس کی کمی کی وجہ وہاں صنعتوں کو قدرتی گیس کی بلاتعطل فراہمی ہے جس کا عدالت نے حکم دے رکھا ہے۔ ’سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں چند ماہ قبل یہ معاملہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام نے اٹھایا تھا اور عدالتی حکمِ امتناع کے نتیجے میں گھریلو صارفین کے لیے گیس کا بحران پیدا ہوگا۔‘
طاہر عباس کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں گیس دو طرح امپورٹ کی جاتی ہے۔ ایک لانگ ٹرم اور دوسرا سپاٹ کارگو کے ذریعے ایل این جی منگوائی جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان کُل 1200 ملین مکعب ایل این جی درآمد کرتا ہے جس میں سے 800 ایم ایم سی لانگ ٹرم قطر سے جبکہ 400 ایم ایم سی سپاٹ کارگو خریدتا ہے۔‘
خلیق کیانی نے بتایا کہ انڈسٹری کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کے تحت صنعتوں کو نو ماہ گیس ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ گیس بحران کی ایک وجہ ایل این جی کے کارگو کی امپورٹ میں کمی بھی ہے۔ ’گزشتہ برس دسمبر تک 11 ایل این جی کارگو پاکستان آ چکے تھے جبکہ رواں سال اب تک 8 کارگو آئے ہیں۔‘
تاہم طاہر عباس کے مطابق موجودہ گیس بحران کا تعلق سپاٹ کارگو کی خریداری سے نہیں۔ ’اس وقت 30 ڈالر کی گیس امپورٹ کرتے تو کون خریدتا سوائے پاور سیکٹر کے۔ اس لیے ایل این جی کارگو اوپر نیچے ہونے سے بڑا فرق نہیں پڑا۔ حالیہ بحران میں اس کا کوئی کردار نہیں۔‘
گیس بحران کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
خیلق کیانی نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ ’قدرتی گیس کے مزید کنکشن گھریلو صارفین کو دینے کا سلسلہ بند کیا جائے کیونکہ یہ صرف بڑے شہروں میں 25 فیصد ملکی آبادی کو ہی مل رہی ہے۔ شہر پھیل رہے ہیں جبکہ دور دراز اور دیہی علاقوں میں صارفین کا انحصار ایل پی جی، لکڑی، کوئلہ اور مٹی کے تیل سمیت ایندھن کے دیگر ذرائع پر ہے جو قدرتی گیس سے آٹھ گُنا مہنگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قدرتی گیس سے بجلی کے کارخانے چلائے جائیں اور ہر شہری کے گھر تک بجلی پہنچائی جائے۔ سردیوں میں بجلی سرپلس ہوتی ہے تو اس کو استعمال میں لایا جائے۔
طاہر عباس کہتے ہیں کہ مستقبل میں گیس بحران سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ نئے ذخائر کی دریافت پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ’تیل و گیس کی تلاش کے لیے نئے بلاکس ایوارڈ کیے جائیں۔
’نئے ایل این جی ٹرمینلز بنائے جائیں۔ لانگ ٹرم کے سودے کیے جائیں اور گیس پائپ لائن کا نیٹ ورک بڑھایا جائے۔‘
طاہر عباس کے مطابق ’عالمی مارکیٹ میں حالیہ تیزی غیرمعمولی ہے۔ صورتحال بہتر ہو گی اور قیمتیں بھی کم ہوں گی تو لانگ ٹرم کے سودوں میں فائدہ ہوگا۔‘
خلیق کیانی نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلوں پر منحصر ہے۔ ’حماد اظہر سیاست میں دباؤ میں آ گئے اور نہ وزیراعظم اور نہ ان کی کابینہ کے دوست اس مسئلے کے حل کے لیے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پالیسی فیصلوں کی جس قسم کی صورتحال ہے اس میں تو یہ بحران مستقبل میں بھی ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔‘