Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کے ’گمشدہ‘ رہنما علی نواز اعوان منظر عام پر، آئی پی پی میں شامل ہوگئے

9 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف نے الزام لگایا تھا کہ سابق وزیر اور پارٹی رہنما علی نواز اعوان کو’جبری گمشدگی‘ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ (فوٹو: آئی پی پی)
پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور رہنما مبینہ گمشدگی سے منظر عام پر آنے کے بعد رہنما پارٹی سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔  
پی ٹی آئی رہنما اور سابق ایم این اے علی نواز اعوان اتوار کو روز منظر عام پر آگئے اور لاہور میں استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے پیٹرن انچیف  جہانگیرترین اور صدر استحکام پاکستان پارٹی علیم خان سے ملاقات کی۔
ملاقات میں علی نواز اعوان نے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔
خیال رہے 9 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف نے الزام لگایا تھا کہ سابق وزیر اور پارٹی رہنما علی نواز اعوان کو’جبری گمشدگی‘ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
پی ٹی آئی ترجمان نے کہا تھا کہ علی نواز کی جبری گمشدگی ’اغوا برائے بیان‘ کے شرمناک سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا تھا کہ عام انتخابات سے قبل پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کی مبینہ جبری گمشدگی کے واقعات تحریک انصاف کو انتخابی میدان سے باہر رکھنے کی سازش ہے۔
آئی پی پی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں جہانگیر ترین سے ملاقات میں علی نواز  اعوان  نے  اپنے مستقبل کے سیاسی فیصلے سے آگاہ کیا۔
جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان نے علی نواز اعوان کو آئی پی پی میں شمولیت پر خوش آمدید کہا۔
خیال رہے پی ٹی آئی کے پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کی جبری گمشدگیوں اور آنے والے انتخابات میں پارٹی کے لیے لیول پلئینگ فیلڈ کی غیر موجودگی کے خدشات کے حوالے سے  صدر علوی نے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو خط لکھ  دیا تھا۔

جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان نے علی نواز اعوان کو آئی پی پی میں شمولیت پر خوش آمدید کہا۔ (فوٹو: آئی پی پی)

رواں ماہ کے شروع میں لکھے گئے خط میں صدر نے وزیراعظم پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے لیول پلیئنگ فیلڈ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے خدشات پر غور کریں۔
صدر علوی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ سیاسی وابستگیاں رکھنے والے افراد کی جبریوں گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر میڈیا میں بھی بحث ہوئی۔
لوگوں کی سیاسی وابستگیاں اور وفاداریاں بدل جانے پر ایسے واقعات تشویش کا باعث بنتے ہیں۔
وزیراعظم کو بھیجے گئے خط میں صدر مملکت لکھتے ہیں کہ خواتین سیاسی ورکرز کی طویل نظر بندی یا عدالت کی جانب سے ریلیف کے بعد بار بار  گرفتاریاں  معاملے کو مزید حساس بنا دیتی ہیں۔

شیئر: