مریم نواز کا تین برس بعد دورہ کوئٹہ، پذیرائی کیوں نہ مل سکی؟
مریم نواز کا تین برس بعد دورہ کوئٹہ، پذیرائی کیوں نہ مل سکی؟
ہفتہ 18 نومبر 2023 6:03
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
تجزیہ کار جلال نورزئی کے مطابق مریم نواز نے کوئٹہ میں ن لیگ کی خواتین ونگ سے بھی الگ ملاقات نہیں کی۔ (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی چیف آرگنائزر مریم نواز رواں ہفتے تین سال بعد کوئٹہ کے سیاسی دورے پر آئیں تو انہیں وہ توجہ اور پذیرائی نہیں ملی جو اکتوبر 2020 کے دورہ کوئٹہ اور ایوب سٹیڈیم میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کے بعد ملی تھی۔
تب ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ، بلوچستان کے پیچیدہ مسائل پر بے باک تقریر اور بلوچی لباس کی وجہ سے خاتون لیگی رہنما عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی مگر اس بار ان سمیت پورا شریف خاندان نہ صرف مخالفین بلکہ اتحادی جماعتوں اورعوامی حلقوں کی بھی تنقید کی زد پر رہا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بیانیے میں یکسر تبدیلی اور باپ جیسی جماعتوں کی سیاسی شخصیات کو ن لیگ میں شامل کرنا ہے جن پر انہوں نے اپنے پچھلے دورے میں نام لے کر شدید تنقید کی تھی۔
مریم نواز شریف نے کوئٹہ کا اپنا آخری سیاسی دورہ اکتوبر 2020 میں اس وقت کیا تھا جب ان کے والد جلاوطن تھے اور وہ ان کی غیر موجودگی میں ن لیگ کو ملک بھر میں متحرک کیے ہوئی تھی۔ انہوں نے کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں پی ڈی ایم کے زیر اہتمام ایک بڑے جلسے سے خطاب بھی کیا۔
تجزیہ کار جلال نورزئی کہتے ہیں ’تب حالات ان کے لیے ناموافق تھے، جلسے سے پہلے کہا گیا کہ سکیورٹی خطرات ہیں جلسے کے دوران انٹرنیٹ سروس بند رکھی گئی لیکن اس کے باوجود 11 جماعتوں کا یہ مشترکہ جلسہ کامیاب رہا۔ مریم نواز توجہ کا مرکز بنی رہیں۔‘
اس جلسے میں مریم نواز نے اپنے خطاب میں باپ پارٹی پر شدید تنقید کی تھی اور کہا کہ ’بلوچستان کے عوام کو اپنے نمائندے چننے کا حق نہیں، حکومت و زیراعلٰی اور وزراء کا فیصلہ کوئٹہ کے عوام نہیں کوئی اور کرتے ہیں۔ راتوں رات باپ یا ماں کے نام سے پارٹی بنتی ہے اور وہ ایک بچے کو جنم دیتی ہے اور اگلے دن اسی بچے کو وزیراعلٰی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔‘
جلال نوزئی کہتے ہیں کہ اُس وقت مریم نواز اور ن لیگ کا بیانیہ کچھ اور تھا ۔ وہ ووٹ کو عزت دو کی بات کرتی تھیں، انہوں نے اپنی تقریرمیں لاپتہ افراد، بلوچستان کے حقوق، مسائل، انتخابات میں دھاندلی، فوجی آپریشنز سمیت ہر مشکل موضوع پر کھل کر تقریر کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’لگی لپٹی کے بغیر سیاسی مؤقف کے اظہار اور بھر پور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مریم نواز نے لوگوں کی توجہ حاصل کی مگر اس بار انہوں نے منگل اور بدھ کو اپنے والد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور چچا میاں شہباز شریف کے ہمراہ کوئٹہ کا دو روزہ دورہ کیا تو ان کی تمام تر سرگرمیاں شہر کے اس سب سے بڑے ہوٹل تک محدود تھی جہاں وہ قیام پذیر تھے۔‘
دورہ کوئٹہ کے دوران سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی بھائی نواز شریف کے ہمراہ تھے۔ (فوٹو: پی ایم ایل این)
کوئٹہ میں نجی ٹی وی کی بیورو چیف بشریٰ قمر کے مطابق ’میاں نواز شریف اور مریم نواز ہوٹل سے نہیں نکلے ہی نہیں۔ صرف شہباز شریف لشکری رئیسانی سے ملنے کے لیے ان کی رہائشگاہ گئے۔ باقی مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت، ن لیگ میں شمولیت کرنے والی شخصیات سے ملاقاتیں اور ورکرز کنونشن بھی اسی ہوٹل کے ایک چھوٹے سے ہال میں رکھا گیا۔‘
تجزیہ کار جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ ’مریم نواز نے ن لیگ کی خواتین ونگ سے بھی الگ ملاقات نہیں کی جب کارکنوں سے فاصلہ رہے گا تو اس کے منفی اثرات ہوں گے۔‘
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اپنے والد کی غیرموجودگی میں مریم نواز نے عمران خان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اورسیاسی ماحول میں خود کو منوایا اس سے انہیں ملک کے باقی حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی پذیرائی ملی۔
جلال نورزئی کا کہنا تھا کہ ’باقی ملک کی طرح بلوچستان میں بھی ن لیگ کے رہنماء، کارکن، ووٹر اور عام لوگ شہباز شریف کی بجائے مریم نواز کو میاں نواز شریف کا حقیقی جانشین اور نائب سمجھتی ہیں اسی لیے ان کے لیے شہباز کی بجائے مریم نواز زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔‘
تین برس قبل اپنے دورے میں مریم نواز نے باپ پارٹی پر سخت تنقید کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ان کے مطابق ’یہ المیہ ہے کہ مریم نواز نے بلوچستان کو کماحقہ توجہ نہیں دی۔ صوبے میں تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے اور براہ راست لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کی بجائے ن لیگ نے ان الیکٹیبلز کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا جن پر وہ ماضی میں بہت سخت تنقید کرتے تھے اور وہ بھی انہیں غدار پکارتے رہے۔‘
باپ پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے الیکٹیبلز کی شمولیتی تقریب کے موقع پر صحافیوں سے غیررسمی گفتگو میں مریم نواز نے اسے اپنا حق قرار دیا اور کہا کہ ن لیگ نے اپنا چھینا ہوا حق واپس لے لیا۔
جلال نورزئی کہتے ہیں کہ سیاسی مؤقف میں اس یوٹرن نے ن لیگ اور ان کی قیادت کی ساکھ کو نقصان پہنچا دیا ہے۔