بنگلہ دیش میں ’پُرتشدد‘ کریک ڈاؤن، شفاف انتخابات ممکن نہیں: ہیومن رائٹس واچ
بنگلہ دیش میں ’پُرتشدد‘ کریک ڈاؤن، شفاف انتخابات ممکن نہیں: ہیومن رائٹس واچ
پیر 27 نومبر 2023 12:47
بی این پی سے تعلق رکھنے والے کئی کارکنوں کو مقدمات کا سامنا ہے (فوٹو: اے پی)
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل ’مقابلے کی فضا ختم کرنے کے لیے‘ اپوزیشن جماعتوں کے خلاف وسیع اور پُرتشدد کریک ڈاؤن جاری ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کریک ڈاؤن کے دوران 10 ہزار کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
حراست میں لیے گئے ہزاروں افراد کے ساتھ ساتھ اہم بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سے تعلق رکھنے والے کئی کارکنوں کو بھی مقدمات کا سامنا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ بی این پی کے مطابق اس کے 50 لاکھ اراکین میں سے تقریباً نصف کو ’سیاسی مقدمات کا سامنا ہے۔‘
ایک کارکن نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ’گرفتاری کے لیے وہ سینیئر لیول سے لے کر نچلی سطح تک کسی کو نہیں چھوڑ رہے۔‘
17 کروڑ آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک میں 7 جنوری کو عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد مسلسل چوتھی بار اقتدار میں آنے کی خواہاں ہیں۔
بی این پی اور دیگر جماعتوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے ہیں جن میں حسینہ واجد سے اقتدار چھوڑنے اور ایک غیر جانبدار حکومت کو انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے ان مطالبات کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے حکام اپوزیشن کو دبانے اور عام انتخابات سے قبل مقابلے کو ختم کرنے کی واضح کوشش میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کر رہے ہیں۔‘
انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا کہ اکتوبر میں مظاہروں میں اضافے کے بعد سے کم از کم 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو پولیس افسران بھی شامل ہیں جبکہ پانچ ہزار 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنے افراد کو گرفتار کیا ہے تاہم پولیس نے اپوزیشن پر 29 اکتوبر سے ملک گیر ہڑتالوں اور نقل و حمل کی بندش کے دوران 290 گاڑیوں اور بسوں کو نذر آتش کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ تشدد میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ متعدد گواہوں کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ ویڈیوز اور پولیس رپورٹس کے تجزیے پر مبنی ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ اسے ’ثبوت ملے ہیں کہ سکیورٹی فورسز ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال، بڑے پیمانے پر من مانی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کی ذمہ دار ہیں۔‘
ہیومن رائٹس واچ کی سینیئر ریسرچر جولیا بلیکنر کا کہنا ہے کہ ’اِن حالات میں قابلِ اعتماد انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ جب حکومت کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی پر پابندی، من مانی گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں، ہراساں اور ڈرانے دھمکانے کے ذریعے منظم طریقے سے اپوزیشن، ناقدین اور کارکنوں کو نااہل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو شفاف انتخابات ناممکن ہیں۔‘
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ پر حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔