Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی سمگلر کن نئے طریقوں سے پاکستانیوں کو ورغلا رہے ہیں؟

جون میں یونان کشتی حادثے کے بعد ایف آئی اے نے انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا تھا۔ (فائل فوٹو)
ملائیشیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں مستنصر حسین کو ڈاک کا انتظار تھا وہ کئی روز سے فکر مندی سے جس ڈاک کا انتظار کر رہے تھے اس میں ان کو اپنا پاسپورٹ ملنا تھا اور پھر ایک دن ان کو ڈاک موصول ہوئی اور اس میں ان کا پاسپورٹ تھا۔
اس پاسپورٹ پر آسٹریلیا کا ویزا لگا ہوا تھا۔ ویزا دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ لیکن ابھی ان کی فکر پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے پاکستان سے اپنے قریبی دوستوں اور خاندان کے اور افراد کے پاسپورٹ بھی ویزا لگوانے کے لیے ایک ایجنٹ کو دے رکھے تھے۔ یہ ایجنٹ کئی ملکوں میں کام کر رہا تھا۔
جب ساتوں افراد کو پاسپورٹ مل گئے تو ایجنٹ نے باقی کی رقم کا تقاضا کیا۔ لیکن اس سے پہلے مستنصر کو انکشاف ہوا کہ اس کے پاسپورٹ پر لگنے والا ویزا جعلی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’سہیل صدیقی نامی ایجنٹ کے ساتھ سات ویزوں کا 80 لاکھ روپیہ طے کیا تھا اور ورک ویزے دلوانے کی بات ہوئی تھی۔ ہم اس کو 65 لاکھ روپے دے چکے تھے باقی پیسے پاسپورٹ ملنے کے بعد دینے تھے۔ لیکن اس سارے عمل میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی تھی۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’جب پاسپورٹ مجھے ملا اور دو دن کے بعد پاکستان میں میرے کزنز کو بھی پاسپورٹ ملے تو ہم سے سہیل نے باقی کے پیسوں کا تقاضا کیا۔ تو اس وقت ایسے ہی ہمارے دل میں خیال آیا کہ ویزوں کو چیک کروا لیا جائے۔ ہم کون سا دو نمبر کام کر رہے تھے ہم نے جینوئن کام کے پیسے دیے تھے۔ جب ہم نے اپنے آسٹریلین ویزوں کو چیک کروایا تو وہ جعلی تھے۔‘
مستنصر نے ایجنٹ سے رابطہ کیا تو انہیں کہا گیا کہ ’کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی آپ پاسپورٹ واپس دیں، پاسپورٹ واپس دیے تو وہ سہیل نامی شخص پاسپورٹ اور پیسے سمیت غائب ہو چکا ہے۔ اس وقت ملائیشیا میں پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے ایف آئی اے کو درخواست دی گئی جو اب اس شخص کی کھوج میں ہے۔‘
پنجاب کے ضلع قصور میں ایف آئی اے کی ٹیم نے ایک ایسے شخص کو حراست میں لیا ہے جو اس وقت تک مختلف لوگوں سے ورکنگ ویزوں کی مد میں دس کروڑ روپے اکھٹے کر چکا ہے۔
طیب علی نامی شخص نے شہر میں جگہ جگہ بینر لگوا رکھے تھے کہ مختلف ملکوں کے ورک پرمٹ ویزے دستیاب ہیں۔

اچھے مستقبل کی خاطر لوگ سمندری راستوں سے یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن سمگلنگ ونگ نے اس وقت طیب کو گرفتار کیا جب وہ دس کروڑ سے زائد رقم اکھٹی کر چکا تھا اور اب فرار ہونے کی تیاریوں میں تھا۔
یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعات کے بعد پاکستان میں کام کرنے والے انسانی سمگلروں اور ایجنٹس نے اپنے طور طریقوں میں خاصی تبدیلی کی ہے اور اب وہ لوگوں کو سیدھے ورکنگ پرمٹ اور جعلی ویزوں کے ذریعے بے وقوف بنا رہے ہیں۔
ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل منعم چوہدری بتاتے ہیں کہ ’یونان کشتی حادثے کے بعد بڑے پیمانے پر آپریشن کیے گئے اور ان افراد کو پکڑا گیا جو اس مکروہ دھندے میں ملوث تھے۔ لیکن اب انہوں نے اپنے طریقوں میں تبدیلی کی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اب ایف آئی اے ان افراد پر بھی کڑی نظر رکھتی ہے جو عمرہ کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں ایسے بہت سے افراد کو سفر سے روکا گیا جن پر شک گزرا اور بعد میں یہ بات ثابت ہوئی کہ انہیں وہاں سے ساؤتھ افریقہ بھیجا جانا تھا۔‘
جیسے جیسے انسانی سمگلروں کے پرانے طریقے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر میں آتے ویسے ہی یہ افراد اپنے طریقوں کو تبدیل کر رہے ہیں۔
منعم چوہدری کے مطابق یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کے پے درپے واقعات ہونے بعد ہی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اب انسانی سمگلر کون سا نیا طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔

شیئر: