Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ: لڑائی کے دوران بے گھر ہونے والوں کی واپسی کے کیا امکانات ہیں؟

اسرائیلی فوج نے غزہ میں زمینی کارروائی بھی کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جنگ میں بظاہر کامیاب وقفے کے بعد غزہ کے شہریوں کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اگر مستقل جنگ بندی ہوئی تو متاثرین کی گھروں کو واپسی کب اور کیسے ممکن ہو گی۔
عرب نیوز کے مطابق گزشتہ 50 دنوں سے زیادہ کی مسلسل بمباری میں اسرائیل کی فوج نے شمالی غزہ کے زیادہ تر حصے کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے اور مختلف علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔
غزہ میں جو مکانات، ہسپتال اور سکول باقی رہ گئے ہیں اس میں واپسی کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ حکام کو گھر گھر جا کر اور عمارتیں دیکھ کر اندازہ لگانا ہو گا کہ کس سطح کی تعمیر نو کی ضرورت ہو گی۔
بین الاقوامی امور کے پروفیسر اور تحقیقی ادارے چیتھم ہاؤس کے مینا پروگرام کے ایسوسی ایٹ فیلو یوسی میکلبرگ نے عرب نیوز کو بتایا کہ فلسطینیوں کی واپسی سے متعلق سوالات دل دہلا دینے والے ہیں۔
’ہم جانتے ہیں کہ غزہ کے کچھ شہری جو جنگ کی وجہ سے علاقہ چھوڑ چکے تھے وہ یا تو واپس آ گئے ہیں یا واپسی کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ آیا ان کے مکانات موجود ہیں یا تباہ ہو گئے۔‘
کہا جا رہا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی شمالی غزہ چھوڑ چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے فضائی کارروائی کو ناگزیر قرار دیا ہو لیکن برطانیہ میں تنازعات کے نگراں ادارے ایئر وارز نے اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد شدید قرار دیا ہے۔
ایئروارز کی ڈائریکٹر ایملی ٹِرپ نے عرب نیوز کو بتایا کہ غزہ میں موجودہ کارروائی کا اندازہ 2016 اور 2017 کے درمیان موصل کی 9 ماہ کی جنگ سے لگایا گیا ہے اور اقوام متحدہ اور دیگر ماہرین کے مطابق جنگ ختم ہونے کے بعد شہر کا 80 فیصد حصہ غیر آباد ہو گیا تھا۔
ایملی ٹِرپ نے مزید کہا کہ ’اس وقت امریکہ نے موصل کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے شدید میدان جنگ قرار دیا تھا اور ہمارے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی مہینے میں چھ ہزار سے زیادہ گولہ بارود نہیں گرایا گیا۔‘
’اگر اسرائیلی ڈیفنس فورس کے پہلے ہفتے سے 10 دنوں میں چھ ہزار گولہ بارود گرائے جانے کا ابتدائی بیان درست ہے تو گزشتہ ہفتے کے عارضی وقفے کے بعد اس کا امکان ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورس نے ایک مہینے میں اتحادیوں سے زیادہ گولہ بارود گرایا ہو جو انہوں نے داعش کے خلاف استعمال کیا تھا۔‘

جنگ بندی کے بعد بعض فلسطینی شہری اپنے علاقوں کو لوٹ آئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نارویجیئن ریفیوجی کونسل کے امدادی کارکن یوسف ہماش جو جبالیہ کیمپ سے جنوب کی جانب منتقل ہوئے تھے، نے پی بی ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل نہیں دیکھ رہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے علاقے واپس جانا چاہتے ہیں چاہے ان کو اپنے مکان کے ملبے پر ہی کیوں نہ سونا پڑے۔
31 برس کے ٹیکسی ڈرائیور محمد جمال کا کہنا ہے کہ جب وہ شمالی غزہ کے بیت حانون سے جا رہے تھے تو وہ نہیں بتا سکتے تھے کہ وہ کس گلی اور علاقے سے گزر رہے ہیں۔
غزہ میں نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے اسرائیلی پابندیاں رکاوٹ ہیں تاہم نومبر کے دوسرے ہفتے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر برائے انسانی حقوق نے کہا تھا کہ تقریباً 45 فیصد رہائشی علاقہ تباہ کر دیا گیا۔
آکسفیم کی پالیسی کی سربراہ بشریٰ خالدی جو خود بھی رملہ میں مقیم ہیں، نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے شہریوں کو جنوب کی جانب بھیجنا جبری منتقلی کے مترادف ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کو نقل مکانی کا مطالبہ واپس لینا چاہیے۔
انہوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا اتنے وسائل نہیں کہ 11 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی دیگر علاقوں میں میزبانی کی جائے۔
بشریٰ خالدی کا کہنا تھا کہ ’جنوب میں پناہ گاہوں، امداد اور پانی کی پہلے سے کمی ہے۔ اس چیز کی بھی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ شہری غزہ کے دیگر علاقوں میں پناہ ڈھونڈ لیں گے۔ وہ لوگ جو شمالی غزہ میں رہ گئے ہیں، بطور شہری ان کو تحفظ سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔‘
’امریکہ، برطانیہ، یورپ اور دیگر مغربی اور عرب ممالک جو اسرائیل کی سیاسی اور عسکری قیادت پر اثرورسوخ رکھتے ہیں، اسرائیل سے فوری طور پر نقل مکانی کا حکم واپس لینے کا مطالبہ کریں۔‘

بشریٰ خالدی کے مطابق اتنے وسائل نہیں کہ 11 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی دیگر علاقوں میں میزبانی کی جائے۔ (فوٹو: اے پی)

غزہ کی جنگ سے قبل تقریباً 70 فیصد فلسطینی پہلے ہی پناہ گزین ہیں، اب جنگ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کی انٹیلی جنس سروس نے تجویز پیش کی ہے کہ غزہ کے شہریوں کو سینائی بھیجا جا سکتا ہے۔
اس تجویز کو بعد میں اسرائیلی حکومت نے مسترد کر دیا تھا اور فلسطینیوں اور مصر کی جانب سے اس کی شدید مذمت بھی سامنے آئی تھی۔
بین الاقوامی امور کے پروفیسر یوسی میکلبرگ کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ جو چیز عارضی طور پر شروع ہوتی ہے وہ مستقل ہو جاتی ہے اور ہم جانتے ہیں کیونکہ 75 برس گزرنے کے بعد بھی 1946 میں بے گھر ہونے والے فلسطینی اب بھی دوسرے ممالک میں موجود ہیں اور یہ حقیقت پناہ گزینوں کی رہائش کی مشکلات کو بڑھا رہی ہے۔
ایسے خدشات عرب رہنماؤں کے بیانات سے بھی سامنے آئے ہیں۔
بین الاقوامی انسانی قانون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بشریٰ خالدی نے کہا کہ کوئی بھی ملک جنگ سے فرار ہونے والوں کو محفوظ پناہ گاہوں تک رسائی دینے سے انکار نہیں کر سکتا۔

اسرائیلی کی بمباری سے غزہ کے رہائشی علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ (فوٹوؒ اے ایف پی)

پروفیسر یوسی میکلبرگ نے کہا کہ اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک مکمل نظرثانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پناہ گزین کیمپوں کے قیام کے لیے بین الاقوامی سطح پر مشترکہ کوششیں ہونی چاہییں تاکہ ان کو ضرورت کی تمام چیزیں مہیا ہوں اور وہ محفوظ ہوں۔
پروفیسر یوسی میکلبرگ نے زور دیا کہ جب جنگ ختم ہو تو غزہ میں تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔

شیئر: