Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: جنگ بندی کے باوجود غزہ میں امداد پہنچانا کس قدر مشکل ہے؟

اسرائیلی بمباری میں 14 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
غزہ کے جنگ زدہ شہریوں کے لیے عطیات کی فراہمی کے باوجود محدود تعداد میں امدادی ٹرکوں کو رفح راہداری سے گزرنے کی اجازت ہے جس سے متاثرین کی ضروریات کو بروقت پورا کرنے میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے عرب امارات میں وفد کی سربراہ کلیئر ڈالٹن نے عرب نیوز کو بتایا کہ غزہ کے اندر رہنے والوں کو مدد اور مستقل بنیادوں پر انسانی امداد کی ترسیل کو ممکن بنانا ضروری ہے۔
عر ب نیوز کے پروگرام فرینکلی سپیکنگ کو دیے گئے انٹرویو میں کلیئر ڈالٹن نے کہا کہ جب تک اسرائیل بڑی تعداد میں ٹرکوں کو رفح راہداری سے گزرنے کی اجازت نہیں دے گا، تب تک شہریوں کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔
’ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ لوگوں کی مدد کے لیے بہت زیادہ امداد بھیجی جا رہی ہے لیکن حقیقت میں زیادہ امداد اندر نہیں جا سک رہی۔‘
انہوں نے بتایا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک انتہائی محدود تعداد میں امدادی ٹرک غزہ کے اندر داخل ہو سکے ہیں۔
کلیئر ڈالٹن نے بتایا کہ7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے پہلے روزانہ 500 کے قریب ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے تھے لیکن تنازع شروع ہونے کے بعد سے صرف 12 سو داخل ہوئے ہیں جو ایک بہت بڑا فرق ہے۔
’نہ صرف یہ کہ لوگوں کی بنیادی ضروریات نہیں پوری ہو رہیں بلکہ اس تباہ کن لڑائی میں انفراسٹرکچر بھی تباہ ہو گیا ہے، لوگ مارے گئے، زخمی ہیں، بھاگ رہے ہیں لیکن ان کے لیے (امداد) ناکافی ہے۔۔۔ انسانی امداد بہت ہی کم ہے۔‘ 
آئی سی آر سی نے ایک غیر جانبدار فریق کے طور پر جمعے کو یرغمالیوں کے پہلے گروپ کے تبادلے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

لڑائی کے بعد اسرائیل بہت کم ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے دے رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

غزہ میں جہاں انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہو چکا ہے وہاں آئی سی آر سی کی میڈیکل ٹیمیں زخمیوں کا علاج کر رہی ہیں اور لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
لڑائی کے دوران اسرائیل الزام عائد کرتا رہا ہے کہ غزہ کے بڑے ہسپتالوں میں حماس نے سرنگیں بنا رکھی ہیں جہاں اسلحہ بھی دبایا ہوا ہے۔
ان سرنگوں کی موجودگی کے حوالے سے کلیئر ڈالٹن نے کہا کہ ’اس قسم کے دعوؤں کی تصدیق کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔۔۔ ہمارے لیے متاثرین کی ضروریات کو پورا کرنا اہم ہے۔‘
ایک اور سوال پر کہ کیا حماس نے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا، کلیئر ڈالٹن نے کہا ’مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ ہمارے لیے جو باعث تشویس ہے وہ لوگوں کی ضروریات ہیں کہ انہیں کن چیزوں کی ضرورت ہے اور ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کیسے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔‘
غزہ میں صحت کے حکام کے مطابق 14 ہزار سے زیادہ شہری اسرائیلی بمباری میں مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ 17 لاکھ بےگھر ہوئے۔
’انتہائی تباہ کن صورتحال ہے۔ لوگوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے اور وہ بہت زیادہ تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ اس تنازعے کی شروعات کے بعد سے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔۔ غزہ گنجان آباد شہر ہے اور لوگوں کے پاس بھاگنے کے لیے زیادہ جگہیں بھی نہیں ہیں۔‘
اقوام متحدہ نے انسانی امداد فراہم کرنے والوں کے لیے غزہ تنازعے کو مہلک ترین قرار دیا ہے جس میں ایک سو سے زائد اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

امدادی تنظیموں نے بغیر رکاوٹ کے غزہ میں امداد پہنچانے پر زور دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کلیئر ڈالٹن نے کہا کہ ’امدادی ورکرز کے لیے ایسے حالات میں کام کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ہماری سرجیکل ٹیم فیلڈ میں موجود ہے، ایک سرجیکل ٹیم جنوبی غزہ کے ہسپتال میں ہے، ایک یورپی ہسپتال میں ہے جو تین ہفتوں سے وہاں کام کر رہے ہیں۔‘
’اور جب ہم ان کی کہانیاں سنتے ہیں جو وہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن مریضوں کا علاج کر رہے ہیں، وہ (طبی ٹیمیں) اپنے ارد گرد بےپناہ تکلیف دیکھ رہے ہیں۔‘
غزہ کے جنگ زدہ لوگوں کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے کلیئر ڈالٹن نے کہا ’بجلی کی سہولت نہیں ہے۔ اکثر اندھیرا ہوتا ہے۔ بہت زیادہ مشکل ہے۔ میڈیکل سپلائی ناکافی ہے۔ بہت ہی گہرے زخموں کے ساتھ مریض مسلسل آ رہے ہوتے ہیں، جنہیں خاص علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے انتہائی مشکل صورتحال ہے۔‘
سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی جانب سے بڑے پیمانے پر امداد غزہ بھیجی گئی ہے جبکہ شہری بھی عطیات کے ذریعے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
آئی سی آر سی کی عہدیدار کلیئر ڈالٹن کا کہنا ہے کہ عرب امارات اور خلیجی ممالک بہت فراخ دلی سے امداد بھیج رہے ہیں لیکن جس نوعیت کی تباہی کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔

شیئر: