Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ جلسہ: پیپلز پارٹی کو رہنماؤں کی شمولیت سے ’آکسیجن‘ مل گئی

بلوچستان میں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے اور پیپلز پارٹی نے اپنے یومِ تاسیس پر ایک بھرپور شو کرنے کے بعد اب سیاسی بساط پر بھی اپنے مہرے چل کر سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے اور صوبے کے سیاسی منظرنامے میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی نمایاں ہوئی ہے۔
تاہم ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سرِدست الیکٹ ایبلز اور اہم سیاسی شخصیات کو اپنی جماعتوں کا حصہ بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
گذشتہ ایک ماہ کے دوران مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہوں کے دوروں کے بعد ان دنوں پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو بلوچستان کے دورے پر ہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت تین دنوں سے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ کوئٹہ میں یومِ تاسیس کے جلسے اور بار سے خطاب کیا۔
پیپلز پارٹی کے قائدین صوبے کے سیاسی رہنماؤں، پارٹی کی صوبائی قیادت، کارکنوں اور مختلف شعبۂ زندگی کی شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
ان کی سرگرمیوں نے کوئٹہ کے سرد موسم میں بھی سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری کوئٹہ کے علاقے جناح ٹاؤن میں پارٹی رہنما ملک شاہ کی رہائش گاہ پر گئے جہاں کئی اہم سیاسی شخصیات نے ان سے ملاقات کے بعد پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والوں میں تین سابق ارکان صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے میر سرفراز ڈومکی، پی ٹی آئی کے نائب صدر نصیب اللہ مری اور ثمینہ شکیل شامل ہیں۔
سابق ضلع ناظم سبی حیربیار ڈومکی، صحبت پور سے دوران خان کھوسہ اور حال ہی میں ن لیگ میں شامل ہونے والے سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے سردار زادہ انعام کھیتران شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ’الیکٹ ایبلز کی شمولیتوں سے پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں پوزیشن بہتر ہوئی ہے‘ (فائل فوٹو: پی پی پی میڈیا سیل)

قلعہ عبداللہ سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما ولی خان غبیزئی، اے این پی کے صوبائی صدر سابق ایم پی اے اصغر خان اچکزئی کے بھائی اکبر خان اچکزئی نے بھی پی پی پی میں شمولیت اختیار کی۔
14 نومبر کو میاں نواز شریف کے دورۂ کوئٹہ کے موقع پر سابق وزیراعلٰی جام کمال خان کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہونے والی مینا مجید نے صرف دو ہفتے بعد ہی سیاسی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔
سابق وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو نے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ باقاعدہ شمولیت کا اعلان آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد کریں گے۔
ایک سال قبل سابق ارکان بلوچستان اسمبلی ظہور بلیدی، میر عارف محمد حسنی، نعمت اللہ زہری، میر اصغر رند کے علاوہ میر رؤف رند، نواب زادہ جمال رئیسانی اور شکیل درانی بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ 
 

سابق وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو نے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے (فائل فوٹو: ماجد آغا ایکس اکاؤنٹ)

تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ن لیگ کی جانب سے درجن سے زائد سابق پارلیمنٹیرینز سمیت 30 اہم شخصیات کو اپنی صفوں کا حصہ بنانے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کا حالیہ دورۂ کوئٹہ بھی بُرا نہیں رہا۔
تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ سال کے آخر میں بلوچستان کے کئی الیکٹ ایبلز کی شمولیت کے بعد حالیہ دوروں میں ہونے والی شمولیتوں سے پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں کسی حد تک آکسیجن ملی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سرفراز ڈومکی، نصیب اللہ مری، دوران کھوسہ اور غلام رسول عمرانی کی شمولیت سے سبی، کوہلو، نصیرآباد اور جعفرآباد میں پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔‘
رشید بلوچ کا خیال ہے کہ ’2018 کی نسبت 2024 کے انتخابات میں پی پی پی کی بلوچستان اسمبلی میں مناسب نمائندگی ہوگی، تاہم وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں ن لیگ کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہوگی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کی شکل میں انتخابات کے نتائج یک طرفہ رہے تھے تاہم، اس بار ایسا نہیں ہو گا۔‘ 

سیاسی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ’سبی، کوہلو، نصیرآباد اور جعفرآباد میں پیپلز پارٹی کو مضبوط امیدوار مل گئے ہیں‘ (فوٹو: پی پی پی میڈیا سیل)

رشید بلوچ کے بقول، ن لیگ کی پوزیشن اچھی ہوسکتی ہے مگر وہ بھی تنہا حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو گی اور اسے حکومت سازی کے لیے جے یو آئی یا کسی دوسری جماعت سے اتحاد کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
تجزیہ کار شاہد رند سمجھتے ہیں کہ ’آئندہ عام انتخابات میں بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام اچھی پوزیشن میں ہوں گی جبکہ بلوچ اور پشتونخواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں اپنی بقا کی جنگ لڑیں گی۔‘
ان کا خیال ہے کہ اس بار جے یو آئی بلوچستان کے پشتون علاقوں سے ہی نہیں بلکہ بلوچ علاقوں میں بھی نظر آئے گی کیونکہ حالیہ مہینوں میں بلوچ علاقوں سے سابق وزیراعلٰی نواب اسلم رئیسانی سمیت اہم شخصیات کی شمولیت سے اس مذہبی جماعت کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔
شاہد رند کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں پہلے بظاہر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کھیل سے باہر ہوگئی ہے، تاہم آصف علی زرداری نے شطرنج کا جو میدان سجایا ہے اگر ان کی مقامی قیادت اس کے مطابق اچھا کام کرے تو  پیپلز پارٹی بھی اچھی پوزیشن میں آسکتی ہے۔‘

شیئر: