Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایم کیو ایم پاکستان پر پی ایس پی قابض ہے،‘ جماعت میں مزید توڑ پھوڑ متوقع؟

ایم کیو ایم پاکستان میں ابتدائی طور پر اندرونِ خانہ شروع ہونے والے اختلافات اب کُھل کر سامنے آرہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کی سیاست میں گذشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ایم کیو ایم ایک اہم سیاسی فریق رہی ہے، تاہم چند برس قبل یہ پارٹی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئی۔
ایم کیو ایم میں تقسیم اس وقت شروع ہوئی جب پارٹی کے سربراہ الطاف حسین نے ایک متنازع تقریر کی جس کے بعد انہیں پارٹی قیادت سے الگ کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔
چند برس قبل پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) بھی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں ضم ہو گئی جس کے بعد اب یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پر غالب آچکی ہے؟ 
ایم کیو ایم سے کئی دہائیوں کی رفاقت رکھنے والے کارکن اور رہنماؤں کے دیگر جماعتوں میں شامل ہونے کے بعد یہ سوال کراچی شہر میں زبان زدِعام ہے۔  
ایک جانب تو پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی پارٹی میں شمولیت کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے تو دوسری جانب دیگر سیاسی مخالفین بھی ایم کیو ایم پاکستان پر پی ایس پی کے قابض ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے کی بنیادی وجہ پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں کے شامل ہونے کے بعد کیے گئے فیصلوں کو قرار دے رہے ہیں۔  
پاک سرزمین پارٹی کب بنی؟ 
متحدہ قومی موومنٹ سے 2013 میں علیحدگی اختیار کرنے والے رہنما سید مصطفیٰ کمال اور انیس احمد قائم خانی نے 3 مارچ 2016 کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بانی ایم کیو ایم سے الگ ہونے اور نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا۔
سابق میئر کراچی اور سابق ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم انیس قائم خانی کی آواز پر سندھ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایم کیو ایم کے کئی کارکن، ذمہ داران اور اراکین اسمبلی اس نئی پارٹی میں شامل ہوئے۔

الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے اُن سے لاتعلقی کا اظہار کردیا (فائل فوٹو: ایم کیو ایم فیس بُک)

 کئی پریس کانفرنسز ہوئیں اور ایم کیو ایم کے کئی اراکین اسمبلی یکے بعد دیگرے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی پارٹی کا حصہ بننے لگے۔
پاک سرزمین پارٹی نے ڈولفن کے نشان پر عام انتخابات اور کئی مرتبہ ضمنی انتخابات میں حصہ لیا، تاہم کوئی بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔  
موجودہ ایم کیو ایم میں تقسیم کا آغاز کیسے ہوا؟ 
22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی ایک متنازع تقریر کے بعد پارٹی کے سینیئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے الطاف حسین سے علحیدگی کا اعلان کیا۔
فاروق ستار نے ایم کیوایم پاکستان کے نام سے جماعت چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد وہ پارٹی کے سربراہ بنے اور میئر کراچی کے انتخاب کا عمل مکمل ہوا۔
مشکل حالات میں ایم کیوایم کراچی میں اپنا میئر منتخب کروانے میں کامیاب ہوئی اور ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے یہ عہدہ سنبھالا۔
اس علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی جنہیں ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کہا جانے لگا۔ کچھ عرصہ تک تو یہ بندوبست درست رہا۔

سانق رکن قومی اسمبلی عبدالوسیم نے الزام لگایا کہ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان پر پاک سرزمین پارٹی کے رہنما غالب ہیں‘ (فائل فوٹو: ایم کیو ایم ایکس اکاؤنٹ)

تاہم وسیم اختر سے سوال جواب کرنے پر فاروق ستار کو پارٹی میں ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے رائے شماری کے ذریعے انہیں پارٹی کی سربراہی سے ہٹا دیا۔
سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو پارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا جو اب تک ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
اس فیصلے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنا راستہ الگ کرتے ہوئے ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے نام سے کام کرنا شروع کیا۔ یہ ایم کیو ایم نام پر تیسری تقسیم تھی۔ ان کے گروپ کو ایم کیو ایم پی آئی بی گروپ کہا جانے لگا۔  
کیا انتخابات میں ناکامی ایم کیو ایم کے دھڑوں کے اتحاد کی وجہ بنی؟ 
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق ’ایم کیو ایم کے دھڑوں میں منقسم ہونے کا بھرپور فائدہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے مخالفین نے اٹھایا۔‘
’کراچی اور حیدر آباد سمیت دیگر علاقوں میں ووٹ بینک تقسیم ہونے پر ایم کیو ایم کی طاقت کم ہوئی اور مخالفین باآسانی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’سندھ کے شہری علاقوں میں عام انتخابات اور ضمنی الیکشن میں مسلسل ناکامیوں کے بعد ایم کیو ایم کے پاکستان میں کام کرنے والے دھڑوں اور پی ایس پی کے رہنماؤں نے ایک پلٹ فارم پر یکجا ہونے کا فیصلہ کیا۔‘  

سیاسی ماہرین کے مطابق ’ووٹ بینک تقسیم ہونے پر ایم کیو ایم کے مخالفین باآسانی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مظہر عباس نے بتایا کہ ’گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے رہنماؤں سے رابطے ہوئے اور مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ 2022 میں ایم کیوایم پاکستان میں پاک سرزمین پارٹی کو ضم کر دیا گیا۔‘
’کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر آباد میں آکر اپنے گروپ کے ساتھ متحدہ میں واپس آنے کا اعلان کیا۔‘  
مظہر عباس کے مطابق ’اس وقت ایم کیو ایم پاکستان میں پی ایس پی اور ڈاکٹر فاروق ستار گروپ ایک جگہ جمع ہیں جبکہ ایم کیوایم لندن اور مہاجر قومی موومنٹ اب بھی الگ پلٹ فارمز پر کام کر رہی ہیں۔‘ 
موجودہ ایم کیو ایم سے رہنما کیوں الگ ہو رہے ہیں؟ 
ایم کیو ایم پاکستان میں پی ایس پی اور فاروق ستار گروپ کے اتحاد کے بعد ایم کیو ایم کی تنظیمی ذمہ داریوں میں ردوبدل کیا گیا اور پی ایس پی اور فاروق ستار گروپ کے رہنماؤں کو تنظیم میں اعلٰی عہدے دیے گئے ہیں۔
ان عہدوں کی تبدیلی کے بعد سے ایم کیو ایم پاکستان کے کئی رہنما غیر فعال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر اندرونِ خانہ ہونے والے اختلافات اب کُھل کر سامنے آرہے ہیں۔
کئی دہائیوں سے متحدہ قومی موومنٹ کا حصہ رہنے والے کارکن اور رہنما اب دیگر سیاسی جماعتوں کا رُخ کر رہے ہیں۔  

پارٹی میں اختلافات کے باعث ایم کیو ایم کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر کے ہمراہ ایم کیو ایم پاکستان کے کئی رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی اور پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
پی پی کے رہنما سعید غنی نے ایم کیو ایم چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے رہنماؤں اور کارکنوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اسے پارٹی کی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی الیکشن کی طرح عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی شہر کی بڑی جماعت کے طور پر اُبھرے گی۔‘  
دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔  
ایم کیو ایم پاکستان کو خیرباد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے سابق رکن اسمبلی عبدالوسیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنی ناراضی کی وجہ بتائی۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ایم کیو ایم پاکستان پر پی ایس پی قابض ہوگئی ہے۔ پارٹی کی پالیسی سے لے کر تنظیمی معاملات تک پاک سرزمین پارٹی کے رہنما ہی غالب ہیں۔‘
’ایم کیو ایم کے کئی سینیئر کارکن اور رہنماؤں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دینے والوں کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔‘

عامر خان اور وسیم اختر ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے (فائل فوٹو: وسیم اختر ایکس اکاؤنٹ)

عبدالوسیم نے مزید کہا کہ ’الطاف حسین کے بیان کے بعد علیحدگی اختیار کرنے والوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن اب چند افراد نے پارٹی پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنے من پسند افراد کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔‘  
واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں پی ایس پی اور فاروق ستار گروپ کے شامل ہونے کے بعد سے ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان سیاسی سرگرمیوں میں غیر فعال ہیں۔
اسی طرح سابق میئر کراچی وسیم اختر بھی تنظیمی معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے اور بہت سے رہنما ایسے ہیں جنہوں نے پارٹی پروگراموں میں آنا بھی ترک کردیا ہے۔  
ایم کیو ایم پاکستان پر پی ایس پی رہنماؤں کے قابض ہونے کی باتوں کی ترجمان ایم کیو ایم پاکستان سختی سے تردید کرتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایم کیو ایم سندھ کی نمائندہ جماعت ہے۔ سیاسی جماعتوں میں الیکشن سے قبل رہنماؤں کا آنا جانا ہوتا ہے۔‘
’متحدہ اپنی پوری قوت کے ساتھ عام انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہے، آنے والے الیکشن کے نتائج یہ ثابت کر دیں گے کہ ایم کیو ایم ہی سندھ کے شہری علاقوں کی مقبول ترین جماعت ہے۔‘ 

شیئر: