Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کا جلسہ: نظرِبد سے بچاؤ کی دعائیں، بلوچی پگڑی اور تھرپارکر کی خواتین

بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی سے زیادہ مسلم لیگ ن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ’مہنگائی لیگ‘ کہا (فوٹو: پی پی پی ایکس اکاؤنٹ)
چند روز قبل آصف علی زرداری کی جانب سے ایک ٹی وی انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری سے متعلق خیالات کے اظہار کے بعد دونوں میں اختلافات کی خبریں گرم تھیں مگر دورہ کوئٹہ نے اس تاثر کو ختم کردیا۔
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کوئٹہ میں ہر موقع پر ایک ساتھ رہے۔اکٹھے کوئٹہ پہنچے، ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا اور جلسہ گاہ بھی ساتھ ہی آئے۔
دونوں نے ایوب سٹیڈیم میں پارٹی کے 56 ویں یوم تاسیس کی مناسبت سے منعقدہ جلسے سے اپنے خطاب میں ایک دوسرے کی تعریفیں کیں۔
سابق صدر نے کہا کہ ’بلاول کی پہلے دنیا میں پہچان ان کی والدہ، والد اور نانا کی وجہ سے تھی اب انہوں نے اپنی پہچان خود بنالی ہے۔‘
انہوں نے بلاول کی سپورٹ کرنے، ان کی تربیت کرکے مستقبل کا لیڈر بنانے کی بات کی اور کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کم عمر وزیر خارجہ کے بعد ملک کا کم عمر وزیراعظم بھی بنے گا۔
بلاول بھٹو نے بھی اپنے والد کی بطور صدرِ مملکت کامیابیوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں اگلی باری پھر زرداری کا نعرہ بھی لگایا۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین نے خود کو نوجوانوں کا نمائندہ قرار دیا اور تقریر میں زیادہ تر نوجوانوں کو ہی مخاطب کیا۔
اپنے گذشتہ جلسے میں بلاول بھٹو نے بزرگ سیاست دانوں کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا، تاہم اس بار انہوں نے کُھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بجائے علامہ اقبال کے اس شعر پر اکتفا کیا۔
’خِرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پِیروں کا استاد کر
انہوں نے اقتدار میں آکر نوجوانوں کے لیے تعلیم، روزگار، انٹرن شپ اور مالی تعاون کے منصوبے شروع کرنے اور یوتھ کارڈ کے اجرا کا عندیہ بھی دیا۔
بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں انتقام، انا، نفرت اور تقسیم کی سیاست کے بجائے نئی طرز کی سیاست کرنے پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نئی سوچ اور نئی سیاست کی ضرورت ہے، پیپلز پارٹی نئی طرز کی سیاست شروع کرنا چاہتی ہے جس میں سیاست دانوں یا سیاسی جماعت کی مخالفت کے بجائے غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور مسائل کا مقابلہ کیا جائے۔ انہوں نے ’عوامی میثاق معیشت‘ لانے کی بھی بات کی۔

کوئٹہ کے جلسے میں بلاول بھٹو اور آصف زرداری کی موجودگی نے دونوں میں اختلافات کے تاثر کو ختم کردیا (فوٹو: پی پی پی ایکس اکاؤنٹ)

بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں پی ٹی آئی سے زیادہ مسلم لیگ ن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’مہنگائی لیگ‘ کے نام سے پکارا۔
چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی نے یوم تاسیس پر کوئٹہ میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا تو بلوچستان میں سٹریٹ پاور نہ ہونے اور موسم کی شدت کی وجہ سے جلسے کی کامیابی کے حوالے سے خدشات دکھائی دے رہے تھے۔
جلسے کے لیے ایوب سٹیڈیم کے فٹ بال گراؤنڈ کے نسبتاً بڑے میدان کا انتخاب کیا گیا تھا جسے بھرنا سٹریٹ پاور رکھنے والی مقامی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔
جلسہ شروع ہونے سے پہلے تک خدشات دُرست دکھائی دے رہے تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ منتظمین نے فٹ بال میدان کے دونوں اطراف ٹینٹ لگا کر جلسہ کے لیے مختص احاطے کو چھوٹا کردیا تھا۔
تاہم رفتہ رفتہ کارکنوں کی بڑی تعداد پہنچنا شروع ہوگئی تو صوبائی قیادت نے سُکھ کا سانس لیا اور انہوں نے ٹینٹ ہٹانے کی ہدایت کی۔
میدان کا عقبی حصہ خالی ہونے کی وجہ سے سٹیج سے مقامی قیادت نے تلاشی کے بغیر ہی کارکنوں کو داخل ہونے کی اجازت دینے کی ہدایت کی جس کے بعد کارکنوں کی بڑی تعداد تلاشی کے بغیر ہی اندر داخل ہوئی۔

سینیئر صحافی کے مطابق ’کمزور تنظیمی ڈھانچے اور موسم کی شدت کے باوجود پیپلز پارٹی کا جلسہ بظاہر کامیاب رہا‘ (فوٹو: پی پی پی ایکس اکاؤنٹ)

سردی کی وجہ سے جلسے کے لیے دن کا وقت رکھا گیا۔کارکن صبح نو بجے پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔آصف زرداری اور بلاول بھٹو دوپہر دو بجے جلسہ گاہ پہنچے تو کارکنوں نے کھڑے ہوکر جوش و خروش سے ان کا استقبال کیا۔
جلسے کے آغاز پر تلاوت کے بعد پارٹی کے مرحوم قائدین کی مغفرت کے ساتھ بلاول کے لیے نظربد سے بچاؤ کی دعا بھی کی گئی۔
صوبائی رہنماؤں نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو روایتی بلوچی پگڑی پہنائی۔ اس موقع پر بعض افراد نے بلوچی پگڑی پہنے آصف زرداری کا موازانہ نواز شریف کے حالیہ دورہ کوئٹہ کی ایک وائرل ویڈیو سے کیا۔
 اس ویڈیو میں نواز شریف نے ایک لیگی کارکن کے اصرار کے باوجود بلوچی پگڑی پہننے سے انکار کیا۔ سابق وزیراعظم کے اس عمل پر لوگوں کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے اس جلسے میں نظم و ضبط کا فقدان رہا۔ پارٹی کے یوتھ ونگ کے رضا ار غیر منظم کارکنوں کے آگے بے بس دکھائی دیے۔
سٹیج سے ملحقہ خواتین اور میڈیا کے نمائندوں کے لیے مختص احاطے میں بڑی تعداد میں کارکن رکاوٹیں ہٹا کر اندر داخل ہوگئے۔

تھرپارکر سے آنے والی خواتین اپنے منفرد روایتی لباس کی وجہ سے جلسے میں نمایاں تھیں (فوٹو: پی پی پی ایکس اکاؤنٹ)

آگے بڑھنے کی کوشش میں خاردار تاریں ہٹاتے ہوئے کئی کارکن زخمی بھی ہوئے۔اس صورت حال میں میڈیا کے نمائندوں بالخصوص کیمرہ مینوں کو کام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پارٹی کی مقامی قیادت سٹیج کے قریب کھڑے کارکنوں کو ہاتھوں میں پوسٹرز دے کر ان پر لگی تصاویر کے ذریعے خود کو نمایاں دکھانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دی۔
کوئٹہ میں قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے جلسوں میں عموماً خواتین کی شرکت بہت کم ہوتی ہے، تاہم پیپلز پارٹی کے اس جلسے میں خواتین کی شرکت نمایاں رہی۔
نہ صرف کوئٹہ، نصیرآباد اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بلکہ سندھ اور ملک کے باقی حصوں سے بھی خواتین جلسے میں شرکت کے لیے آئی ہوئی تھیں۔
تھرپارکر سے آنے والی خواتین اپنے منفرد روایتی لباس کی وجہ سے نمایاں تھیں۔مقامی خواتین ان سے لباس کے متعلق پوچھتی رہیں۔
ان میں سے ایک سمترا منجیانی بھی تھیں جو پیپلز پارٹی کی وومن ونگ کی عہدے دار ہونے کے ساتھ تھرپارکر کی میونسپل کمیٹی کی وائس چیئرپرسن بھی ہیں۔
سمترا نے کوئٹہ جلسے میں شرکت کی وجہ بتائی کہ ’جہاں جہاں بلاول جائیں گے ہم ان کے ساتھ جائیں گے۔‘

سٹیج سے ملحق خواتین اور میڈیا کے لیے مختص احاطے میں بڑی تعداد میں کارکن رکاوٹیں ہٹا کر اندر داخل ہوگئے (فوٹو: اردو نیوز)

جلسہ گاہ کے اختتام تک میدان کے عقبی اور اطراف کے حصوں میں کارکنوں کی تعداد کم تھی۔ کارکنوں کی بڑی تعداد جلسہ گاہ کے باہر سٹیڈیم کے اندر اور باہر سڑک پر لگے کھانے پینے کے سٹالوں، دکانوں یا پھر گاڑیوں میں بیٹھی رہی۔
انتظامیہ نے جلسہ گاہ کے باہر بھی تقریر سننے کے لیے لاؤڈ سپیکر نصب کر رکھے تھے۔
سندھ اور گرم علاقوں سے آنے والے کارکن سردی کی شکایت کرتے اور سردی سے بچنے کے لیے دھوپ سینکتے یا چائے کے سٹالوں کے قریب نظر آئے۔
لیاری اور حب چوکی سے آنے والے بلوچ کارکن پیپلز پارٹی کے نغموں پر رقص کرکے لوگوں کی توجہ حاصل کرتے رہے۔
جلسہ گاہ سے نکلتے ہوئے موٹرسائیکل پر سوار پیپلز پارٹی کے ایک 60 سے 70 سالہ بزرگ کارکن وزیر خان خجک پولیس سے اُلجھتے ہوئے نظر آئے۔
وزیر خان نے بتایا کہ ’وہ تقریباً سبی سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر موٹرسائیکل پر طے کرکے بے نظیر بھٹو کے بیٹے کو دیکھنے کے لیے کوئٹہ پہنچے ہیں۔‘
’تاہم پولیس والے انہیں موٹرسائیکل کے ساتھ اندر جانے نہیں دے رہے۔وہ پریشان دکھائی دیے کہ موٹر سائیکل کہاں کھڑی کرکے اندر جائیں۔‘

پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ایوب سٹیڈیم کے جلسے میں 7 سے 8 ہزار افراد نے شرکت کی‘ (فوٹو: اردو نیوز)

جلسہ گاہ کے باہر کچھ کارکن ہاتھ میں ایرانی کمبل پکڑے کھڑے تھے۔ پوچھنے پر ان میں سے سرفراز احمد نامی کارکن نے بتایا کہ وہ کراچی کے علاقے ناظم آباد سے جلسے میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔‘
 انہوں نے بتایا کہ ’ہم پہلی مرتبہ کوئٹہ آئے ہیں۔کوئٹہ دیکھنے کا شوق تھا۔ جلسے میں شرکت بھی کرلی، کوئٹہ بھی دیکھ لیا اورساتھ شاپنگ بھی کرلی۔‘
جلسے کے دوران ایک کارکن نے سٹیج کے ساتھ میڈیا اور خواتین کے لیے بنائے گئے الگ احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی، تاہم پیپلز پارٹی یوتھ ونگ کے رضاکاروں نے انہیں روک لیا۔
کارکن کا کہنا تھا کہ ’میں سیہون سے مہمان آیا ہوا ہوں‘ جس  پر قریب ہی کھڑے ایک شخص نے کہا کہ ’صرف آپ نہیں پورا جلسہ ہی مہمانوں کا ہے‘۔ ان کا اشارہ شاید سندھ سے بڑی تعداد میں آنے والے کارکنوں کی طرف تھا۔
کوئٹہ کے علاوہ پشین، لورالائی، نصیرآباد، جعفرآباد، کچھی، خضدار، خاران، پنجگور اور بلوچستان کے دیگر اضلاع سے بھی کارکن جلسے میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔
کارکنوں کی بڑی تعداد بلوچستان سے ملحق سندھ کے علاقوں جیکب آباد، سکھر، شکارپور، شہدادکوٹ، لاڑکانہ، نواب شاہ اور اندرونِ سندھ سے بھی کوئٹہ پہنچی تھی۔

کارکنوں کی بڑی تعداد جلسہ گاہ کے باہر سڑک پر لگے کھانے پینے کے سٹالوں، دکانوں یا پھر گاڑیوں میں بیٹھی رہی (فوٹو: اردو نیوز)

جیکب آباد کے علاقے گڑھی خیرو کے وحید الدین نے بتایا کہ ’وہ پارٹی کی قیادت کی ہدایت پر کوئٹہ آئے ہیں۔‘
لاڑکانہ سے آنے والے نور مصطفیٰ نے بتایا کہ پہلے یوم تاسیس کا جلسہ ہمارے گاؤں میں ہوتا تھا، ہم وہاں جاتے تھے اس بار کوئٹہ میں ہوا تو یہاں  بھی آئے ہیں۔
ان سے پوچھا کہ کیا پارٹی نے جلسے میں شرکت کے لیے کوئی اخراجات بھی دیے ہیں تو نور مصطفیٰ کا جواب تھا کہ ’پارٹی سرکاری نوکریاں بھی دے، کام بھی کرائے اور ہم خرچہ بھی مانگیں، یہ تو درست بات نہیں۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت آئے ہیں۔یہاں ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔‘
جلسے کے موقع پر سٹیج کے اطراف بالخصوص پارٹی کی مرکزی قیادت کی سکیورٹی سے متعلق سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ سٹیج کی طرف جانے والے داخلی راستے کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا تھا۔
جلسہ گاہ کے اندر کارکنوں کی سہولت کے لیے دو بڑی سکرینز بھی لگائی گئی تھیں، تاہم اس کے باوجود کئی کارکن کرسیوں پر کھڑے رہے تاکہ سٹیج پر بیٹھی قیادت کو دیکھ سکیں۔
ساؤنڈ سسٹم اور جلسے کے دیگر انتظامات کے لیے سندھ کی ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ ٹی وی سکرین، کرین سمیت پروڈکشن کے لیے حیدرآباد سے خصوصی ٹیم لائی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی بلوچستان کی قیادت نے دعویٰ کیا کہ جلسہ گاہ میں 20 ہزار سے زائد کرسیاں لگائی گئی تھیں (فوٹو: اردو نیوز)

پیپلز پارٹی بلوچستان کی قیادت نے دعویٰ کیا کہ جلسہ گاہ میں 20 ہزار سے زائد کرسیاں لگائی گئی  تھیں۔
تاہم جلسے کی نگرانی پر مامور ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ’کرسیوں کی تعداد اس سے بہت کم ہے۔‘ پولیس رپورٹ کے مطابق ’جلسے میں 7 سے 8 ہزار افراد نے شرکت کی۔‘
ایک سینیئر صحافی نے بتایا کہ بلوچستان میں تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری اور موسم کی شدت کے باوجود پیپلز پارٹی کا کوئٹہ میں جلسہ بظاہر کامیاب رہا۔
’اگر نظم و ضبط کو برقرار رکھا جاتا اور جلسہ گاہ کے باہر موجود افراد کو بھی اندر لایا جاتا تو یہ جلسہ مزید بہتر ہو سکتا تھا۔‘

شیئر: