یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب فرانسیسی حکومت نے اسرائیل اور حماس جنگ کے باعث ملک میں حملوں سے متعلق خبردار کیا ہے۔
فرانسیسی وزیراعظم الزیبتھ بورن نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم دہشت گردوں کے سامنے ہار نہیں مانیں گے۔‘
انسداد دہشت گردی پراسیکیوٹرز نے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کریں گے۔
پولیس ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’حکام حملہ آور کو ایک بنیاد پرست اسلام پسند کے طور پر جانتے ہیں اور اس کے نفسیاتی مسائل کا علاج کیا جا رہا تھا۔‘
ذرائع نے مزید کہا کہ گرفتاری سے قبل حملہ آور نے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔
پیرس کے پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ حملہ آور فرانسیسی ہے جو 1997 میں پیدا ہوا تھا اور اسے قتل اور اقدام قتل کی تحقیقات میں گرفتار کیا گیا تھا۔
وزیر داخلہ جیرلڈ ڈرمینن نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور کہا کہ اس شخص کو پہلے ہی 2016 میں ایک حملے کی منصوبہ بندی کرنے پر ’چار سال قید‘ کی سزا سنائی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’حملہ آور نے ایک جوڑے پر حملہ کیا جو غیرملکی سیاح تھے۔ ایک جرمن سیاح جو فلپائن میں پیدا ہوا تھا، وہ چاقو کے وار سے ہلاک ہو گیا۔‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا ایک ٹیکسی ڈرائیور جو اس واقعے کا گواہ ہے، نے مداخلت کی جس کے بعد حملہ آور نے دریائے سین کے پار دیگر افراد پر حملہ کیا اور ایک شخص کو ہتھوڑے سے زخمی کر دیا۔
وزیر داخلہ کے مطابق حملہ آور نے کہا کہ ’مشتبہ شخص نے پولیس کو بتایا کہ وہ برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ افغانستان اور فلسطین میں مسلمان مارے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حملہ آور پر قابو پانے کے لیے ٹیسر گن استعمال کیا گیا اور اس کو گرفتار کر لیا گیا۔
ایک سپر مارکیٹ کے 37 برس کے مینجر جوزف جو ایک بار میں بیٹھے ہوئے تھے، نے سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ لوگ چیخ رہے تھے اور ’مدد مدد‘ پکار رہے تھے۔
’ایک شخص نے ایک چیز اٹھائی ہوئی تھی جس نے ایک شخص پر حملہ کیا جو گر گیا۔ اس کے بعد دس منٹ کے دوران پولیس پہنچ گئی۔‘
فرانس کو شدت پسندوں کے متعدد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نومبر 2015 میں پیرس میں ہونے والے خودکش حملے اور فائرنگ کے واقعات شامل ہیں جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ان حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔