Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں زور پکڑتی دہشتگرد کارروائیاں، کون سے علاقے ہدف پر؟

دہشتگردی کے واقعات میں اضافے سے سکیورٹی صورتحال مزید مخدوش ہوتی نظر آ رہی ہے (تصویر بشکریہ: سعود رحمان)
پیر اور منگل کی درمیانی شب پاکستان کے شمال مغربی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک چیک پوسٹ پر حملے میں 23 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے۔ اس سے محض دس روز قبل دو دسمبر کو شمالی علاقہ جات میں چلاس کے مقام پر ایک مسافر بس پر فائرنگ میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس سے ایک طرف تو جنوبی ایشیا کے مجموعی حالات پر اثر پڑا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے اندر سیاسی اور سلامتی کی صورتحال مزید مخدوش ہوتی نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گذشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’دو سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں 500 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔‘
انوار الحق کاکڑ نے ان حملوں کا تعلق افغانستان میں طالبان کے اقتدار سے جوڑا تھا اور کہا تھا کہ ’کابل میں طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں 2,867 عام شہری مارے گئے ہیں، اور ان میں سے بیشتر حملوں میں افغان شہری ملوث ہیں۔‘
پاکستان کے سینیئر سکیورٹی اور سیاسی تجزیہ نگار زاہد حسین نے اُردو نیوز کو بتایا کہ دہشت گردی کے ان نئے واقعات میں ساڑھے 400 کے قریب پاکستانی فوجی جان سے گئے ہیں۔
یونائیٹیڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) میں چھپنے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں بڑھتا ہوا تشدد افغان حکومت کی اس پالیسی کا ایک حصہ ہو سکتا ہے جس کے تحت طالبان پاکستان پر دباؤ بڑھا کر دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کے حل کے لیے اپنی کچھ شرائط منوانے کے خواہاں ہوں۔

نگراں وزیراعظم کے مطابق ’دو سال کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اضافہ ہوا‘ (فوٹو: پیسیفک پریس ایجنسی)

پاکستانی حکومت اور سکیورٹی اداروں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیچھے افغانستان میں پناہ گزین تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہے اور افغان حکومت ان کو پناہ دے کر ان واقعات میں مدد کرنے کی مرتکب ہو رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے ہاں غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس بھجوا رہا ہے اور افغانستان پر تجارتی قدغنیں عائد کر رہا ہے۔  

دہشت گردوں کی رسائی میں پاکستان کے علاقے 

پاکستان اور افغانستان میں سکیورٹی امور پر رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سجاد ترکزئی کے مطابق پاکستان کی طرف سے عائد کی گئی تمام تر پابندیوں کے باوجود افغان صوبہ کنڑ سے ملحق پاکستانی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے اراکین کا داخلہ اور کارروائیاں جاری ہیں۔  
سجاد ترکزئی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان کے  قبائلی علاقوں اور جنوبی وزیرستان سمیت ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ اضلاع میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔‘
ان کے خیال میں ڈیرہ اسماعیل خان حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تحریک جہاد پاکستان بظاہر ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم اس سے قبل بھی دو حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے لیکن امکان ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کی ہی ایک طفیلی تنظیم ہے۔
’ماضی قریب میں پاکستان کی طرف سے افغان طالبان پر افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے شدید دباؤ رہا ہے اس لیے غالب امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ دراصل تحریک طالبان پاکستان کے ہی جنگجو ہیں جو نام بدل کر پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔‘
سجاد ترکزئی کے بقول ’حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ علاقوں ٹانک اور میانوالی وغیرہ میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے کافی کامیاب کارروائیاں کی ہیں اور موجودہ حملے بھی بظاہر انھی کارروائیوں کے ردعمل میں کیے جا رہے ہیں۔‘

سکیورٹی اداروں کا ماننا ہے کہ دہشت گردی کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہے (تصویر بشکریہ: عرفان مغل)

انہوں نے بتایا کہ ’کابل میں افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کا مقصد بھی ریاست پاکستان کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرے اور افغانستان میں پناہ حاصل کرنے والے جنگجوؤں کی پاکستان واپسی کے لیے کسی طریقہ کار پر آمادگی ہو۔‘ 
تاہم زاہد حسین سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کے اضافے کے پیچھے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کی عدم تکمیل ہے۔ 
’طالبان کے افغانستان میں حکومت کے آنے کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات تو بڑھے ہیں اور مزید بڑھ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان جن چار پانچ ہزار دہشت گردوں کو واپس لے کر آیا تھا، ان کے سلیپنگ سیل موجود تھے اور انہوں نے دوبارہ کارروائیاں شروع کر دیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دوسری وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تو ہوئے لیکن ان کی جڑوں کا خاتمہ نہیں کیا گیا اور ان کے تعلقات نہیں مٹائے گئے، اور انہی کا وہ اب استعمال کر رہے ہیں۔‘  

’دہشت گردی میں اضافے کا امکان، انتخابات کے التوا کا جواز نہیں‘

زاہد حسین کے مطابق دہشت گردوں کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، ان کے پاس جدید ہتھیار موجود ہیں اور ان کی کارروائیاں مستقبل میں خطرناک صورتحال میں اضافہ کریں گی۔ 
سجاد ترکزئی نے بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’خیبر پختونخوا سمیت بلوچستان میں سکیورٹی فورسز الرٹ ہیں اور خفیہ اداروں کی اطلاع کے مطابق شدت پسند یہاں مختلف علاقوں میں حملے کرسکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ آئندہ چند ہفتوں میں انتخابی گہما گہمی بڑھ جانے کے بعد اس قسم کے حملے دیگر صوبوں میں بھی ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
’کیونکہ اگر ٹی ٹی پی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے تو داعش اور اس سے وابستہ شدت پسند، پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کے خلاف کارروائیاں کر سکتے ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فیصل کریم کنڈی جن کا حلقہ انتخاب ڈیرہ اسماعیل خان ہے، نے کچھ عرصہ قبل اُردو نیوز کو بتایا تھا کہ ان کے حلقے میں رات کو باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور وہاں شدت پسندوں کی موجودگی کے شواہد ہیں۔ 

سجاد ترکزئی نے بتایا کہ ’ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ اضلاع میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔‘ (فوٹو: اے پی)

ان کے مطابق ان کے حریف مولانا فضل الرحمان بھی اس صورتحال سے متفکر ہیں۔ 
تاہم زاہد حسین کے مطابق ’انتخابات کے اتنے قریب آ کر محض دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے ملتوی کرنے کا جواز نہیں ہے۔‘

پاکستان میں دہشت گردی ’افغانستان کی متوازی پالیسیوں کا شاخسانہ‘

یو ایس آئی پی کی تحقیقی رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے سینیئر ایکسپرٹ اسفندیار میر انسداد دہشت گردی سینٹر کے اینڈریو واٹکنس کے ایک مقالے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی کارروائیاں افغانستان کے اندر طالبان میں دو متوازی پالیسی حلقوں قومی تعمیر اور جہادی نظریے کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہیں۔‘
اینڈریو واٹسن کے استدلال کے مطابق افغانستان کے اندر ابھی تک موجود جہادی کیمپ نہ صرف افغانستان کے اندر موجود غیر ملکی جنگجووں کی حفاظت کا داعی ہے بلکہ ان کی مہموں کی مدد کا بھی قائل ہے جبکہ قومی تعمیر کا علمبردار حلقہ علاقائی اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے افغانستان کی معیشت اور ملکی استحکام کا خواہاں ہے۔ ان دو حلقوں کی آپسی کشمکش نے گذشتہ دو سالوں کے دوران ٹی ٹی پی کی مدد اور پاکستان کو تعاون کی یقین دہانیوں کی دوغلی پالیسی کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے۔
’گذشتہ ایک سال میں قومی تعمیر کے حلقے کے تعلقات بھی پاکستان سے خراب ہوئے ہیں جس کی وجہ ان کا یہ سمجھنا کہ پاکستان کا غیرقانونی افغان شہریوں کو واپس بھجوانا طالبان حکومت کو کمتر بنانے کی سازش ہے اور یہ کہ پاکستان نے اقتصادی امور میں ان کی توقعات پوری نہیں کیں۔‘ 

شیئر: