وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا بھی عدالت میں موجود تھے۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہنوں کے علاوہ شاہ محمود قریشی کے اہل خانہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ روز جمعرات تک ملتوی کر دی ہے۔
اس سے قبل ایف آئی اے نے سائفر کیس میں چالان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں جمع کروا دیا تھا جس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو قصوروار قرار دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس کیس میں عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو بطور گواہ طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
دو ماہ قبل امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے خصوصی عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ ’میرے سائفر میں کسی دھمکی اور سازش کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔‘
تحریری بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں سائفر معاملے نے پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ سازش اور دھمکی جیسے معنی یہاں کی سیاسی قیادت نے خود سے اخذ کیے۔‘
سابق سفیر اسد مجید کے بقول انہوں نے سات مارچ 2022 کو امریکی محکمہ خارجہ کے تحت اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو کو مدعو کیا تھا۔ ’یہ ایک پہلے سے طے شدہ ظہرانہ تھا جس کی میزبانی میں نے واشنگٹن میں پاکستان ہاؤس میں کی تھی۔‘
’یہ ملاقات تقریباً 12 بج کر 30 منٹ پر طے تھی اور ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ظہرانے میں اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کے ہمراہ ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ لیسلی ویگوری بھی موجود تھے۔‘
ان کے مطابق ’بات چیت میں دو طرفہ تعلقات کے تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا۔ ایک سائفر ٹیلی گرام جس میں خارجہ سیکریٹری کو مخاطب کیا گیا تھا وہ میں نے بھجوا دیا پھر مجاز اتھارٹی نے اس کی کاپیاں دوسروں کے ساتھ شیئر کیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ سائفر ہمارے خفیہ کوڈڈ کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے بھیجا گیا تھا جو پاکستان کے نمائندہ خارجہ مشنز اور اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے ہدایات کابینہ ڈویژن نے دے رکھی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو کو درست طریقے سے اسلام آباد کو اس سائفر ٹیلی گرام میں رپورٹ کیا۔ سائفر بھیجنا بیرون ملک سفارتی مشنوں کا معمول ہے۔ خفیہ سائفر ٹیلی گرام میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ کے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا اور نہ ہی میں نے کسی سازش کے بارے میں کوئی تجویز پیش کی تھی۔ یہ اسلام آباد میں قیادت کی طرف سے اخذ کردہ ایک سیاسی نتیجہ تھا۔‘