Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل، انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران سے متعلق فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر ججز سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل تھے۔ سماعت کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی۔ 
سماعت کے بعد اپنے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر کے آئندہ آر اوز اور ڈی آر اوز سے متعلق درخواستوں پر کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا جبکہ بیرسٹر عمیر نیازی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آج رات 12 بجے تک انتخابی شیڈول جاری کرے۔
حکم نامے کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے آج ہی شیڈول جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
الیکشن کمیشن نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ پیر کو ڈی آر اوز آر آوز کی تربیت کا دوبارہ آغاز کردیں گے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات کا انعقاد آئین کا تقاضا ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متضاد ہے۔

عدالتی حکم میں لکھا گیا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے 13 دسمبر کے حکم نامے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے سیکشن 50 کے سب سیکشن ون بی اور 51 کی سب سیکشن ون کو غیرآئینی قرار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کی یہ دونوں شقیں گذشتہ انتخابات میں بھی تھیں لیکن کبھی کسی نے چیلنج نہیں کیا۔
عدالتی حکم میں لکھا گیا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ میں کیس کے ذریعے انتخابات آٹھ فروری کو طے ہوئے۔ تمام صوبائی حکومتوں کی سپریم کورٹ میں نمائندگی تھی۔ ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا کوئی بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہ کرے۔
حکم نامے میں لکھا گیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ابھی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں اقدام اٹھا رہے ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو آٹھ فروری کو الیکشن نہیں ہو سکیں گے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا آج انتخابی شیڈول جاری ہونا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’بتایا گیا اگر ہائی کورٹ کا حکمنامہ برقرار رہا تو الیکشن پروگرام جاری نہیں ہو سکے گا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکمنامے میں تضاد ہے۔‘
سپریم کورٹ کے حکم میں لکھا گیا ہے کہ عمیر نیازی کو توہین عدالت قانون کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیا جارہا ہے اور اُن کیخلاف توہین عدالت کا کیس چلایا جائے گا، عمیر نیازی بتائیں ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں انصاف دے رہا ہوں، کمیٹی میں مشاورت کے بعد کیس آج مقرر ہوا۔ (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

اس سے قبل سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ امید ہے الیکشن 8 فروری 2024 کو ہی ہوں گے۔ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل شکیل سواتی نے کہا کہ ہم اس کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
اس پر جسٹس سردار مسعود نے کہا کہ آپ کوشش کی بات کیوں کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری فلائٹ مس ہوئی آپ کیسے مداوا کرینگے؟ لیکن کوئی بات نہیں ہم عدالت میں کیس لگا کر سن رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست لے کر کون گیا تھا؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں انصاف دے رہا ہوں، کمیٹی میں مشاورت کے بعد کیس آج مقرر ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن مصروفیت کے باعث شریک نہیں ہوئے۔ اس لئے سینیئر جج منصور علی شاہ کو بینچ میں شامل کیا، یہ وقت شفافیت اور احتساب کا ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ جو بینچ کیس سن رہا ہے اس کی منظوری جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی دی ہے کیونکہ میں اکیلے بینچ تشکیل نہیں دے سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان (الیکشن کمیشن کے وکیل) کا کہنا ہے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رابطہ کیا، بیورو کریسی سے آر آوز ڈی آر آوز لینے سے شفافیت پر کیسے سوال اٹھاَ تحریک انصاف کو اس وقت کیوں یاد آیا جب آر آوز ڈی آراوز تعینات ہوگئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریٹرننگ آفیسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز دینے کا استحقاق متعلقہ ہائی کورٹس کا ہے۔

حکم نامے کے مطابق ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متضاد ہے۔ (فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ)

اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ڈی آر اوز اور آر آوز نہیں دیے۔ فروری میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ کہہ درخواست مسترد کردی تھی کہ 13 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیا تحریک انصاف چاہتی ہے ملک میں انتخابات نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا ہائیکورٹ کا ایک جج اپنے چیف جسٹس کو کہہ سکتا ہے جوڈیشل افسران نہ دو، کیا اب لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا سیاسی جماعت سے آر او اور ڈی آر او مانگے جا رہے ہیں؟ عدلیہ سے ڈی آر او آر او نہ ہوں ایگزیکٹو سے نہ ہوں تو پھر کہاں سے ہوں؟ اصل مقصد تو یہ لگتا ہے ملک میں انتخابات ہی نہ ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’یہ عمیر نیازی کون ہے، کیا انہیں پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ جائیں‘۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ عمیر نیازی نے انفرادی حیثیت میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کیا، جج کے مس کنڈکٹ پر معاونت کریں، کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس باقر نجفی نے مس کنڈکٹ کیا؟ لاہور ہائی کورٹ کا جج پنجاب کے باہر سے معاملات پر کیسے فیصلہ دے سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمیر نیازی نے جمہوریت کو ڈی ریل کیا، جس پر ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، ہم نے تو اسی تحریک انصاف کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آج رات 12 بجے تک انتخابی شیڈول جاری کرے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس باقی نجفی کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ وہی جج ہے جس نے بجلی کے بلوں پر فیصلہ دیا تھا، جج تو آئین کے پاسداری کا حلف اٹھاتا ہے۔ کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف رٹ منظور کی۔‘

شیئر: