Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابات میں خیبر پختونخوا کی کن سیاسی جماعتوں میں اتحاد ممکن ہے؟

اس وقت جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ ن میں اتحاد کی باتیں چل رہی ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
عام انتخابات کے قریب آتے ہی تمام سیاسی جماعتوں نے جہاں جلسوں اور ورکرز کنونشن پر زور دیا ہوا ہے تو وہیں سیاسی قربتیں بھی بڑھانے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اگر صوبہ خیبر پختونخوا کی سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہاں سیاسی گہما گہمی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ نظر آ رہی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پوزیشن مضبوط ہے اور اسی لیے ہر سیاسی جماعت اس کے متبادل کے طور پر سامنے آنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ اس سیاسی ماحول میں جوڑ توڑ کا سیزن بھی اپنے عروج پر ہے۔ ہر پارٹی سیاسی داؤ پیچ سے دوسرے کی وکٹیں گرانے کی تگ و دو میں ہے۔
دوسری جانب سیاسی اتحاد کے لیے بھی سر جوڑ کر بیٹھک ہو رہی ہے تاہم اب تک کسی بڑی جماعت کی جانب سےاس کا فیصلہ یا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔

کن سیاسی جماعتوں میں اتحاد ہو سکتا ہے؟

خیبر پختونخوا میں اس وقت بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جو اس صوبے میں گذشتہ دو ادوار میں اقتدار میں رہ چکی ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں اس وقت پی ٹی آئی عوامی مقبولیت کے لحاظ سے سرفہرست ہے، ہر ضلع میں یکے بعد دیگرے کامیاب کنونشن منعقد کیے جا رہے ہیں مگر لیڈرشپ کے فرنٹ لائن پر نہ ہونے کی وجہ سے کارکنان میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی کو اگر الیکشن میں لڑنے کا موقع ملا تو اس کی پوزیشن اتنی مضبوط ہے کہ اسے کسی سے اتحاد کی ضرورت نہیں پڑے گی تاہم اگر کہیں سیٹ ایڈجسمنٹ کرنی پڑی تو جماعت اسلامی کے ساتھ اس کی بات چیت ہوسکتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کی پوزیشن اچھی ہے۔ اس وقت جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ ن میں اتحاد کی باتیں چل رہی ہیں اور کافی حد تک معاملات بھی طے پا گئے ہیں۔
جے یو آئی خیبر پختونخوا کے ترجمان جلیل جان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری طرف سے ہر سیاسی جماعت کے ساتھ بات ہو سکتی ہے اور ہم اتحاد کے ساتھ مختلف اضلاع میں سیٹ ایڈجسمنٹ پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اور پرویز خٹک کی جماعت کے علاوہ سب سے اتحاد ممکن ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں جلیل جان نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کو جماعت اسلامی والے چھوڑ کر گئے تھے، اب وہ کیوں گئے یہ سوال آپ ان سے پوچھیں۔

تجزیہ کار شمیم شاہد کے مطابق اس وقت صوبے میں پی ٹی آئی سب جماعتوں کے لیے چیلنج ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

دوسری جانب جماعت اسلامی کی جانب سے ابھی تک مذہبی جماعتوں کے دوبارہ اتحاد کی کوئی بات سامنے نہیں آئی اور انہوں نے تمام حلقوں سے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی صورتحال اس وقت کچھ الگ ہے۔ ان کے رہنماؤں کے حالیہ بیانات اور الزامات سے یہ گماں ہو رہا ہے کہ جیسے ان کا جے یو آئی سے کوئی اتحاد ممکن نہیں ہو سکتا۔ البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کچھ حلقوں میں سیٹ ایڈجسمنٹ ممکن ہے۔
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے سربراہ پرویز خٹک کے مطابق وہ کسی جماعت سے اتحاد نہیں کر رہے مگر سیٹ ایڈجسمنٹ کے لیے کچھ جماعتوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ جبکہ آفتاب شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی اننگز کھیلنے کی تیاری میں ہے۔

’عمران خان کے پاس ووٹرز ہیں مگر لیڈرشپ موجود نہیں‘

پشاور کے سینئیر صحافی اور تجزیہ کار شمیم شاہد سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن، جمیعت علمائے اسلام (ف) اور آفتاب شیر پاؤ کی جماعت میں اتحاد کا امکان ہے مگر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات سے لگ رہا کے کہ اختلافات بڑھ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری سیاسی داؤ پیچ کھیلنے کے ماہر ہیں، امکان ہے کہ آخری وقت میں وہ پی ٹی آئی کے خلاف متحدہ اتحاد بنا لیں گے کیونکہ اس وقت صوبے میں پی ٹی آئی سب جماعتوں کے لیے چیلنج ہے۔
شمیم شاہد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے ضلعی عہدیداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی جماعت سے سیٹ ایڈجمسنٹ کریں۔ تاہم جماعت اسلامی سولو فلائیٹ کے موڈ میں ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے سربراہ پرویز خٹک کے مطابق وہ کسی جماعت سے اتحاد نہیں کر رہے۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے پاس ووٹرز ہیں مگر لیڈرشپ موجود نہیں، کسی کے اوپر مقدمات ہیں کوئی جیل میں ہے اور بعض روپوش ہو چکے ہیں۔‘
تجزیہ کار صفی اللہ گل کے مطابق پورے صوبے میں صرف ایک ہی سیاسی اتحاد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی نظریں پی ٹی آئی پر ہیں اگر اس پر پابندی لگ جاتی ہے تو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی سپورٹ کا فیصلہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں میں سیاسی گراؤنڈ جنوبی اضلاع سے مختلف ہیں۔ اسی طرح یہاں ہر جماعت کے لیے سیاسی ترجیحات الگ ہیں۔ ممکن ہے ملاکنڈ یا جنوبی علاقوں میں ن لیگ اور جے یو آئی میں سیٹ ایڈجسمنٹ ہوجائے تاہم اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا ہے۔

شیئر: