Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جادُو یا ہاتھ کی صفائی، پشاور میں ’ٹیکسی گینگ‘ شہریوں کو لُوٹنے لگے

ایس پی رورل ظفر احمد کے مطابق گرفتار ملزمان سے 5 لاکھ روپے نقد اور موبائل فون برآمد کیے گئے (فوٹو: کے پی پولیس)
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سٹریٹ کرائمز کے ساتھ ساتھ شہریوں کو لوٹنے کے لیے ایک اور طریقہ واردات بھی اپنایا جا رہا ہے جس کو پولیس کی جانب سے ٹیکسی گینگ قرار دیا گیا ہے۔
یہ گینگ سواریوں کو دوران سفر قیمتی اشیاء سے محروم کر دیتے ہیں۔ دیکھنے کو یہ ڈرائیور حضرات پیشے کے لحاظ سے ٹیکسی چلاتے ہیں مگر ان کا روزگار چوری اور جیب تراشی ہے۔ 
ٹیکسی میں واردات کیسے کی جاتی ہے؟ 
پشاور کے ٹیکسی گینگ میں جیب تراشی کا ایک متحرک نیٹ ورک موجود ہے جو شہریوں کو گاڑی کے اندر ہی بے دھیانی میں لوٹتے ہیں۔
نوجوان قاضی حماد بھی انہی جیب کتروں سے دھوکہ کھا کر قیمتی موبائل فون سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ نوجوان نے بتایا کہ اس نے اسلام آباد سے پشاور اڈے پہنچ کر ٹیکسی لی۔ ’میں فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوا اور میری پچھلی سیٹوں پر دو اور افراد بیٹھے ہوئے تھے، دوران سفر ڈرائیور کو کال موصول ہوئی اور اس نے پریشانی کی کیفیت ظاہر کر کے ہمیں کہا کہ میں آپ کو آپ کی منزل تک نہیں پہنچا سکتا کیونکہ میرے گھر میں ایمرجنسی ہے اس لیے آپ اتر جائیں۔‘
حماد نے بتایا کہ ’ڈرائیور نے گاڑی سائیڈ پر روکی اور ہم دو افراد رنگ روڈ پر اتر گئے۔ آگے جا کر جب میں نے کال ملانے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو موبائل موجود نہیں تھا، مجھے پتا ہی نہیں چلا اور میری پینٹ کی جیب سے موبائل نکال لیا گیا تھا۔‘
پشاور میں نجی بینک کے ملازم ارشد حسین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ جب وہ رنگ روڈ سے گھر جارہے تھے تو پیچھے خاتون کی طبیعت بگڑ گئی۔ گاڑی کو روک کر ڈرائیور نے گاڑی موڑنے کا کہا اور مجھے راستے میں اتار دیا، گاڑی سے اترنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ موبائل فون اور پرس نکال لیا گیا ہے۔‘
ارشد حسین کے مطابق وہ خاتون اس ڈرائیور کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ 
ٹیکسی میں واردات کرنے والے یہ جیب کترے کون ہیں؟
ایس پی رورل ظفر احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ ایک منظم گینگ ہے جس میں خواتین اور بچے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ ان کا سرغنہ ڈرائیور ہوتا ہے یہ جیب کترے جب اپنے شکار کو گاڑی میں بٹھاتے ہیں تو پہلے اس کے دھیان کو ہٹانے کے لیے ڈرامہ کرتے ہیں۔

ایس پی سٹی طیب جان نے کہا کہ یہ گینگ اس قدر صفائی سے جیب کاٹتے ہیں کہ شہری کو پتا بھی نہیں چلتا (فوٹو: پشاور پولیس)

انہوں نے کہا کہ بیشتر واقعات میں بچے یا خاتون کی طبیعت کو ناساز قرار دے کر سواری کے سامنے ایمرجنسی ظاہر کرتے ہیں اور دھیان بٹا کر جیب سے اچانک موبائل یا پیسے نکال لیے جاتے ہیں۔ 
ایس پی رورل ظفر احمد کے مطابق رواں سال صرف چمکنی تھانے کی حدود میں سات ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ دو واقعات خزانہ پولیس سٹیشن کی حدود میں ہوئے۔ ان واقعات میں سات کیسز کو کامیابی سے ٹریس کرکے 15 سے زائد ملزمان گرفتار کیے ہیں۔
 انہوں نے بتایا کہ ٹیکسی کی وارداتوں میں گرفتار ملزمان سے 5 لاکھ روپے نقد اور موبائل فون برآمد کیے گئے ہیں۔
کیا جیب کتروں کے پاس کوئی جادُو ہے؟ 
ایس پی سٹی طیب جان نے موقف اپنایا کہ یہ گینگ اس قدر صفائی سے جیب کاٹتے ہیں کہ شہری کو پتا بھی نہیں چلتا۔ ’ان جیب کتروں کے پاس جادو ہے یا کوئی اور چیز جس سے دھیان ہٹ جاتا ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ واردات کے دوران کوئی نشہ آور چیز نہیں دی جاتی نہ ہی اسلحے کا استعمال کرتے ہیں بلکہ یہ ہوش کی حالت میں ہی اپنا کام کر جاتے ہیں۔ ایس پی سٹی کے مطابق پشاور شہر میں اس گینگ نے تین سے چار وارداتیں کی ہیں، جبکہ کچھ روز قبل تھانہ رحمان بابا کی حدود میں ایک ملزم گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
 ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ گینگ اڈے کے آس پاس کارروائی کرتے ہیں کیونکہ ان جگہوں سے ان کو سواریاں زیادہ ملتی ہیں۔ 

شیئر: