Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اور زور سے مارو‘، ٹاکاناکی میلہ جہاں جھگڑے لڑ کر نمٹائے جاتے ہیں

میلے میں آنے والے ایک دوسرے کی دھلائی کرنے کے بعد صلح کر لیتے ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)
اگر آپ کا کسی جرگے یا پنچایت سے پالا نہیں پڑا تو اچھا ہی ہے مگر کسی بھی تنازع کی صورت میں جب یہ بیٹھتا یا بیٹھتی ہے تو اس کے مشران فریقین پر زور دیتے ہیں کہ ’جھگڑے کو افہام و تفہیم سے حل کریں اور صلح کریں۔‘ تاہم دنیا میں ایک ایسا ’جرگہ‘ بھی ہوتا ہے جہاں فریقین کو کہا جاتا ہے کہ ’چلیں اٹھیں اور ہاتھاپائی کر کے اپنا جھگڑا سلجھائیں۔‘
اس کے بعد سجتا ہے میدان، جس کے چاروں طرف بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں اور جس جس کی بھی کسی سے رنجش ہوتی ہے وہ اس کے بارے میں بتاتا ہے جس کے بعد اس شخص کو بلایا جاتا ہے اور باقاعدہ ریسلنگ کی طرح آمنے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے، اس کے بعد ایسی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں، ’زور سے مارو، اڑنگی دو، کِک کراؤ، ٹکر کیوں نہیں مار رہے‘ اس  شور میں فریقین ایک دوسرے پر پل پڑتے ہیں اور خوب دھینگا مشتی ہوتی ہے۔

فائٹ فیسٹیول کہاں اور کب ہوتا ہے؟

یہ ایک میلہ ہوتا ہے جو سال کے آخری دنوں میں جنوبی امریکہ کے مغربی علاقے میں واقع ملک جمہوریہ پیرو میں لگتا ہے۔
پیرو کے مغرب میں بحرالکاہل جنوب میں چلی، جنوب مشرق میں بولیویا اور مشرق میں دریائے امازون واقع ہے۔ یہ لاطینی امریکہ کا سب سے بڑا اور دنیا کا 19 واں بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

ٹاکاناکی کیا ہے؟

پیرو کے رہائشی اس لڑائی کو کیہچوا کہتے ہیں اور یہ انہی کی مقامی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’ایک دوسرے کو مارو‘، یعنی ہمارے ہاں اس کو ٹھکائی سے قریب ترین سمجھا جا سکتا ہے۔
اس کا اہتمام 25 دسمبر کو کیا جاتا ہے اس کا سلسلہ پیرو کے صوبے چمبیولکس کے دارالحکومت سینتو توماس سے شروع ہوا تھا اور اب بھی وہاں ہر سال یہ میلہ منعقد ہوتا ہے اور یہ اس قدر مقبول ہوا کہ اس کا دائرہ دوسرے شہروں تک بھی پھیلتا چلا گیا اور کوزکو اور لیما میں بھی اس کے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔

فیسٹیول میں فریقین کو باقاعدہ میدان مہیا کیا جاتا ہے (فوٹو: نیویارک ٹائمز)

یہ ایک روایتی اور ثقافتی فیسٹیول ہوتا ہے جہاں صرف لڑائی مار کٹائی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس روز لوگ اپنے روایتی لباس پہن کر وہاں پہنچتے ہیں، روایتی پکوان پکائے اور اڑائے جاتے ہیں جبکہ روایتی موسیقی کے سُر بھی بکھرتے ہیں جبکہ بعض منچلے ان پر تھرکتے بھی نظر آتے ہیں۔

لڑائی ہی کیوں؟

اس کے بارے میں پیرو کے سینیئر باشندوں کا کہنا ہے کہ اس طرح دو افراد کے دلوں میں موجود رنجش دور ہو جاتی ہے اور ان کو ایک دوسرے پر جو غصہ ہوتا ہے وہ اس کو نکال کر ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اچھی طرح گھونسے اور لاتیں مار مار کر جب لوگ تھک جاتے ہیں تو انتظامی حکام بیچ میں آتے ہیں اور آمنے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں جس کے بعد وہ اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان جھگڑا حل ہو گیا ہے۔
واقعی صلح ہو جاتی ہے؟
جی بالکل ایسا ہی ہے، یہ ’معرکہ‘ چونکہ ہزاروں لوگوں کے سامنے ہوتا ہے جس کا مقصد ایک دوسرے کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ ایک قسم کا ’کتھارسس‘ ہوتا ہے اس لیے وہ کھلے دل سے ایک دوسرے کو معاف کر دیتے ہیں اور ماضی کو بھلا کر نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔
وہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ ٹاکاناکی میں حصہ لینے والوں کے درمیان بعدازاں مثالی تعلق دیکھنے کو ملتا ہے اور وہ اس کو ایک متبرک موقع قرار دیتے ہیں۔

شروع میں مقابلے صرف مردوں تک محدود تھے مگر بعدازاں خواتین نے بھی حصہ لینا شروع کیا (فوٹو: نیویارک ٹائمز)

’جب خون ابلتا ہے‘

برطانوی اخبار ڈیلی سٹار نے دو روز قبل ہی 25 دسمبر یعنی کرسمس کے روز ہونے والے ٹاکاناکی فیسٹیول کی منظرکشی کی ہے اور اس کے لیے ’جب خون اُبلتا ہے‘ کی شہ سرخی جمائی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس بار بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ فیسٹیول میں شریک ہوئے جو کسی سے متعلق دل میں رنج رکھتے تھے اور ان کو ایک دوسرے کی دھلائی کر کے رنج دور کرنے کا موقع دیا گیا۔
مار کٹائی میں حصہ لینے والوں نے چہرے پر اکثر ماسک چڑھائے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں ایسے ملازمین بھی ہوتے ہیں جن کو اپنے باسز سے کوئی مسئلہ ہوتا ہے اور وہ اپنا چہرہ اس لیے چھپاتے ہیں کہ وہ بغیر کسی تادیبی کارروائی کے ڈر کے اپنے باس کے ساتھ سکور برابر کر سکیں۔
اس موقع پر ریفری بھی موجود ہوتے ہیں جو لڑائی کو زیادہ مہلک مرحلے میں داخل نہیں ہونے دیتے۔
فائٹ پر آمادہ افراد مختلف اقسام کے لباس زیب تن کرتے ہیں جن میں ماضی کے جنگجوؤں اور ایکشن ہیروز کا انداز دکھائی دیتا ہے جبکہ کچھ جانوروں کی طرح ڈیل ڈول بھی بناتے ہیں اور کرسمس کے روز ہونے والی فائٹ میں چند افراد لابسٹر کا انداز اپناتے بھی دیکھے گئے تاہم عمومی طور پر میلے میں کاؤ بوائے کا انداز بہت مقبول ہے۔
عام طور پر لڑائی کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب دونوں میں سے کوئی ایک فریق ناک آؤٹ ہو جائے یا پھر مرحلہ ختم کرنے کا اختیار ریفری کے پاس ہوتا ہے۔

میلے میں روایتی کپڑے پہنے جاتے ہیں اور روایتی کھانوں سے لطف اندوز بھی ہوا جاتا ہے (فوٹو: نیویارک ٹائمز)

اسی طرح اردگرد موجود تماشائیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کے افراد موجود ہوتے ہیں کیونکہ اکثر کسی ساتھی کو پڑتی مار کی وجہ سے اکثر لوگ میدان میں کود جاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال ہونے والی فائٹ میں زیادہ تر تنازعات جائیداد اور رومانوی تعلقات سے متعلق تھے۔

خواتین بھی کسی سے کم نہیں

شروع میں یہ لڑائی بھڑائی صرف مردوں تک محدود تھی مگر بعدازاں اس میں خواتین نے بھی حصہ لینا شروع کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ان کا مقابلہ صرف کسی خاتون سے ہی ہو بلکہ اگر ان کا کسی مرد کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو اس کو بھی گھونسوں اور کِکس پر رکھ لیتی ہیں، اسی طرح کچھ بچے بھی اپنی ٹافی چھننے یا کسی اور رنجش کا اظہار اور اسے دور کرنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔

دل پہ مت لینا

ہر لڑائی کا اختتام دوستانہ مصافحے یا معانقے پر ہوتا ہے اس موقع پر اردگرد موجود لوگ خوب تالیاں بجاتے ہیں اور آوازیں لگاتے ہیں ’دل پہ مت لینا، محبت سے رہنا سیکھو۔‘

’نیا سال رنجش کے بغیر‘

پیرو کے باشندے جو زیادہ تر اپنے پڑوسیوں کے خلاف کسی رنجش کی بنا پر میدان میں اترے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس لڑائی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چند روز بعد شروع ہونے والے نئے سال میں کھلے دماغ اور دل کے ساتھ داخل ہوا جائے اور ایک خوشگوار شروعات کی جائے۔

فیسٹیول کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور اس کو ’بربریت‘ قرار دیا جاتا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

رپورٹ میں مقامی میگزین وائس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ فیسٹیول میں شریک وکٹر جیمی میٹیلا نے میگزین کو بتایا کہ ’یہ ہمارے ہاں معاملات کو درست سمت پر لانے کا ایک طریقہ ہے۔ یہاں کئی ایسے اضلاع موجود ہیں جن میں پولیس سٹیشنز نہیں کیونکہ ہم جھگڑے خود ہی حل کر لیتے ہیں اور پولیس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس سے قبل انصاف کا نظام طاقتور لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور اکثر کمزور لوگ اپنے کیس ہار جایا کرتے تھے۔‘
’میں نے ایسے انصاف کا کیا کرنا ہے جبکہ میرے پاس سب کے سامنے انصاف خود لینے کا آپشن موجود ہے۔‘
وکٹر نے بتایا کہ ’یہ ایک طریقہ ہے کہ لوگوں کو بولنے پر آمادہ کیا جائے، ہم ایسے ہی معاملات کو حل کرتے ہیں اور پھر امن کے ساتھ کچھ نیا شروع کرتے ہیں۔‘

فیسٹیول 25 دسمبر یعنی کرسمس کے روز بنایا جاتا ہے اور ’رنجش کے بغیر‘ نئے سال کے آغاز کا عزم کیا جاتا ہے (فوٹو: نیویارک ٹائمز)

یہ بربریت ہے‘

اگرچہ پیرو میں ٹاکاناکی کو جوش و خروش سے منایا جاتا ہے تاہم دنیا بھر میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو فیسٹیول نہیں بلکہ خصوصی طور پر لڑائی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ بربریت ہے۔‘ جبکہ پیرو کی اپنی حکومت بھی اس کے خلاف ہے اور اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
اسی طرح دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اس کی وجہ انصاف کی عدم فراہمی کو قرار دیتے ہیں اور ساتھ یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس موقع پر بھی وہی لوگ انصاف حاصل کرتے ہیں جو لڑائی کا فن بہتر جانتے ہیں جبکہ ضروری نہیں کہ ہارنے والا واقعی قصوروار ہو۔
اس میلے میں بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوتے ہیں جن کی مرہم پٹی کے لیے پہلے سے انتظام کیا گیا ہوتا ہے۔

شیئر: