Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن 2024: خیبر پختونخوا میں کس رہنما نے کتنے رشتہ دار میدان میں اتارے؟

خیبرپختونخوا میں این اے کے لیے 1283 مرد اور 39 خواتین نے کاغذات جمع کرائے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
عام انتخابات کے لیے سیاسی میدان سج چکا ہے، امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں اور جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔
بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ان کے گھر کے افراد بھی سیاسی اکھاڑے میں اتر چکے ہیں جن میں بھائی، والد، بیٹے اور قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔
ان سیاسی جماعتوں میں سب سے پہلا نام جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا ہے جن کے پانچ رشتہ دار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ 
مولانا فضل الرحمان نے خود آبائی حلقہ قومی اسمبلی این اے 44 ڈی آئی خان اور پشین سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جبکہ ان کے دو بھائی مولانا لطف الرحمان نے پی کے 113 ڈی آئی خان اور مولانا عبیدالرحمان نے قومی اسمبلی این اے 44 اور پی کے 111 پر میدان میں اترے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے دو فرزند سابق وفاقی وزیر مولانا اسعد محمود ٹانک این اے 43 اور مولانا اسجد محمود این اے 41 لکی مروت سے الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

پرویز خٹک کا خاندان

پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک خود قومی اسمبلی حلقہ نوشہرہ کے سمیت دو صوبائی نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروا چکے ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے بھی الیکشن میں حصہ لیں گے۔ ابراہیم خٹک نے پی کے 85 اور اسماعیل خٹک نے نوشہرہ پی کے 86 سے کاغذات جمع کرائے ہیں جبکہ ان کے داماد عمران خٹک بھی قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ہیں۔
پرویز خٹک کے ناراض بھائی لیاقت خٹک اور ان کے فرزند احد خٹک جمیعت علما اسلام کے پیلٹ فارم سے الیکشن لڑیں گے۔

مولانا فضل الرحمان کے خاندان کے پانچ افراد الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں (فوٹو: جے یو آئی، سوشل میڈیا)

درانی خاندان 

سابق وفاقی وزیر اور جمعیت علما اسلام کے رہنما اکرم خان درانی خاندان کے چار افراد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے ہیں جن میں اکرم خان درانی خود قومی اور صوبائی نشست پر الیکشن لڑیں گے جبکہ ان کے بیٹے سابق ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے این اے 39 کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور چھوٹے بیٹے زوہیب درانی صوبائی حلقہ پی کے 100 پر الیکشن لڑنے کی تیاری میں ہیں۔
اکرم خان درانی کے چچا زاد بھائی اعظم خان درانی بھی صوبائی نشست کے لیے امیدوارکے طور پر سامنے آئے ہیں۔

گنڈاپور خاندان

ڈیرہ اسماعیل خان کے گنڈاپور خاندان سے بھی چار افراد نے کاغذات نامزدگی کروائے ہیں جن میں سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے بھائی  فیصل امین اور ان کی اہلیہ بھی صوبائی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کروا چکی ہیں۔
اسی طرح علی امین گنڈاپور نے اپنے والد میجر ریٹائرڈ امین اللہ گنڈاپور کو قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 44 کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

پرویز خٹک کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور داماد بھی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

امیرمقام کا خاندان 
مسلم لیگ کے رہنما امیر مقام خود این اے اور پی کے لیے کاغذات جمع کروا چکے ہیں دوسری جانب ان کے بھائی ڈاکٹر عباد اور بیٹے نیاز احمد خان نے بھی شانگلہ کی صوبائی اور قومی نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

ارباب خاندان

پشاور سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما ارباب عالمگیر نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور ان کے بیٹے ارباب زرک خان صوبائی سیٹ کے امیدوار ہیں جبکہ اہلیہ عاصمہ عالمگیر بھی خواتین کی مخصوص نشست پر کاغذات جمع کرا چکی ہیں۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سابق ایم این اے ارباب شیر علی اس بار پھر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار ہیں اور ان کے بھائی ارباب محمد علی نے صوبائی سیٹ کے لیے کاغذات جمع کروائے ہیں۔

شیرپاؤ خاندان

قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب خان شیرپاو نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 24 اور ان کے بیٹے سکندر خان شیرپاو نے پی کے 62 سے کا غذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں۔

آفتاب خان شیرپاؤ اور ان کے بیٹے بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۰فوٹو: قومی وطن پارٹی، سوشل میڈیا)

کیا موروثی سیاست جمہوریت کے لیے خطرہ ہے؟

سیاسی مبصرین کے مطابق خاندانی سیاست کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کارکنوں میں مایوسی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
پشاور کے سینیئر صحافی شمیم شاہد کے مطابق موروثی سیاست دنیا کے ہر ملک میں موجود ہے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں خاندانوں کی سیاست کو کچھ زیادہ ہی فروغ ملا ہے۔
 انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی یہ بہت عام سی بات ہے اب کوئی بھی لیڈر اپنا بھائی، بیٹا اور قریبی رشتہ دار الیکشن میں کھڑا کر دیتا ہے جس سے نظریاتی کارکنوں میں بے چینی بڑھتی ہے۔ 
ان کے مطابق ’موروثی سیاست کے باعث اکثر ورکرز اپنے قائدین سے ناراض ہوجاتے ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے اگر تمام سیاسی جماعتی کے کارکن اپنے رہنماؤں سے سوال کرنا شروع کردیں تو موروثی سیاست کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔‘
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 1283 مرد اور 39 خواتین امیدوار میدان میں اتری ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے لیے 3349 مردوں اور 115 خواتین نے کاغذات جمع کرائے ہیں، جبکہ مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کے لیے 97 اور صوبائی اسمبلی کے لیے 321 خواتین کے کاغذات بھی جمع ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 30 دسمبر تک جاری رہے گی اور اپیلوں اور کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد امیدواروں کی حتمی فہرست 12 جنوری کو جاری ہو گی۔

شیئر: