مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
منگل 26 دسمبر 2023 6:25
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
مولانا فضل الرحمان پہلی بار خیبرپختونخوا سے باہر کسی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں (فوٹو: جے یو آئی، سوشل میڈیا)
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خیبر پختونخوا میں اپنے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 44 کے علاوہ بلوچستان کے ضلع پشین میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 پر بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان خیبر پختونخوا سے باہر کسی دوسرے صوبے سے انتخاب لڑیں گے۔
جے یو آئی کے سربراہ نے اپنے آبائی ضلع سے 500 کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع پشین کا انتخاب کیا ہے۔ اس ضلع اور حلقے کی سیاست پر مذہبی اور پشتون قوم پرست جماعتیں حاوی رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے اس حلقے کا انتخاب کیوں کیا؟ تجزیہ کاروں کی رائے معلوم کرنے سے قبل مولانا فضل الرحمان کے روایتی حلقہ انتخاب ڈیرہ اسماعیل خان اور انتخابی سیاست پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے والد کی وفات کے بعد پہلی مرتبہ 1988 میں انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور اس کے بعد سے لے کر اب تک پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن، قومی اسمبلی کی خارجہ اور کشمیر کمیٹی کے سربراہ، قائد حزب اختلاف، صدارتی اور وزارت عظمٰی کے امیدوار رہ چکے ہیں۔ٖ
2018 کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمان کو ڈیرہ اسماعیل خان کے دونوں حلقوں این اے 38 اور این اے 39 پر پی ٹی آئی کے امیدواروں سے بڑے مارجن سے شکست ہوئی جس کے بعد 2002 کے بعد وہ پہلی بار قومی اسمبلی سے باہر ہوئے۔
اس شکست کے بعد جے یو آئی کے امیر انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے رہے اور احتجاجی تحریک بھی چلائی۔
اب ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے امیدوار ہیں، ان میں سے ایک حلقہ این اے 44 ڈیرہ اسماعیل خان ہے جبکہ دوسرا پشین کا حلقہ این اے 265 ہے۔
حلقہ این اے 44 ڈیرہ اسماعیل خان
حلقہ این اے 44 ڈیرہ اسماعیل خان کے شہری علاقوں پر مشتمل ہے۔1988 سے 1997 تک یہ حلقہ این اے 18 ،2002 سے 2013 تک این اے 24 جبکہ 2018 کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 38 کہلاتا تھا۔
مولانا فضل الرحمان نے پہلی مرتبہ اس نشست پر 1988میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سے پہلے ان کے والد مفتی محمود بھی اس حلقے سے دو مرتبہ 1972 اور 1977 میں کامیاب ہوئے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے حلقے پر مولانا فضل الرحمان 1988، 1993، 2002 اور 2013 میں چار مرتبہ کامیاب ہوئے جبکہ 1990 سے 2018 تک چار مرتبہ شکست بھی ہوئی۔
سنہ 1990 میں پیپلز پارٹی کی حامی پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے فضل کریم کنڈی، 1997 میں مسلم لیگ (ن) کے سردار عمر فاروق خان ، 2008 میں پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے علی امین خان گنڈاپور نے انہیں شکست دی۔
حلقہ این اے 265 پشین
یہ حلقہ ضلع پشین پر مشتمل ہے ۔پشین کی آبادی 8 لاکھ 35 ہزار ہے اور تقریباً ساری آبادی پشتونوں پر مشتمل ہے۔
یہ کیچ اور خضدار کے بعد بلوچستان کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ضلع ہے۔
یہاں کاکڑ، ترین، سید، اچکزئی اور دیگر قبائل آباد ہیں۔
پشین کی سرحد کوئٹہ، زیارت، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ کے علاوہ افغانستان سے بھی لگتی ہے۔
1988 سے 1997 تک یہ حلقہ این اے 198 کہلاتا تھا اور اس میں پشین کے ساتھ ساتھ موجودہ قلعہ عبداللہ اور پشین کے اضلاع بھی شامل تھے۔
2002 میں قلعہ عبداللہ کو نکال کر پشین کے ساتھ ضلع زیارت کو شامل کر کے حلقہ این اے 261 پشین کم زیارت بنایا گیا۔ 2018 میں زیارت کو الگ کر کے صرف پشین کے ضلع پر حلقہ 262 بنا۔2023 کی انتخابی حلقہ بندیوں میں اس حلقے کو این اے 265 پشین کا نام دیا گیا ہے۔
اس نشست پر 1988 سے اب تک آٹھ میں سے چھ مرتبہ جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
1990 اور 1993 میں دو مرتبہ پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی یہاں سے ایم این اے بنے۔ 1993 میں محمود خان اچکزئی کی جانب سے نشست خالی کرنے پر ضمنی انتخاب میں ان کے بھائی حامد خان کامیاب ہوئے تھے۔
1988 اور 1977 میں جے یو آئی کے مولوی عبدالغنی یہاں سے رکن قومی اسمبلی بنے۔
2002 میں گل محمد دمڑ، 2008 اور 2013 میں دو مرتبہ مولوی آغا محمد جبکہ 2018 کے انتخابات میں کمال الدین جے یو آئی یا ایم ایم اے کے ٹکٹ پر پشین سے کامیاب ہوئے۔
2018 کے انتخابات میں کمال الدین نے مدمقابل پشتونخوامیپ کے امیدوار پر 22 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل کی تھی ۔
اس حلقے پر ماسوائے 2008 کے بائیکاٹ کے ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوتا آرہا ہے۔
2013 کے انتخابات میں تو پشتونخوامیپ کے عیسٰی روشان صرف 524 ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ اس طرح یہ حلقہ جمعیت علمائے اسلام کے بعد پشتونخوامیپ کا گڑھ کہلاتا ہے۔
2013 اور 2018 میں پشتونخوامیپ کے امیدوار عیسٰی روشان اب محمود خان اچکزئی سے راہیں الگ کر کے خوشحال خان کاکڑ کے گروپ کا حصہ ہیں۔
اس حلقے پر مولانا فضل الرحمان کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور پشتونخوامیپ سے الگ ہونے والے دھڑے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خوشحال خان کاکڑ نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے درمیان اس وقت مضبوط تعلقات قائم ہیں اور یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت اس حلقے سے محمود خان اچکزئی مولانا فضل الرحمان کے حق میں دستبردار ہو جائیں گے ۔ اس کے بدلے جے یو آئی چمن اور قلعہ عبداللہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر محمود خان اچکزئی کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کرا لے گی۔
محمود خان اچکزئی کی جانب سے دستبرداری کی صورت میں مولانا فضل الرحمان کا مقابلہ سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ سے ہو گا جنہوں نے ایک سال قبل اپنے والد کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور محمود خان اچکزئی سے راہیں الگ کر کے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے نئی جماعت بنائی۔
پشین سے تعلق رکھنے والے صحافی آغا عبید کہتے ہیں کہ ماضی میں اس حلقے پر ہمیشہ پشتونخوامیپ اور جے یو آئی کے درمیان مقابلہ ہوتا آ رہا ہے اس بار دونوں کے درمیان اتحاد کی فضا موجود ہے۔ پشتونخوا میپ سے اتحاد کی صورت میں مولانا فضل الرحمان کی پوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی مگر خوشحال کاکڑ کی شکل میں انہیں ایک مضبوط امیدوار کا سامنا ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’خوشحال خان کاکڑ پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں وہ نوجوان ہیں اور انہیں اپنے والد کی ناگہانی موت کی وجہ سے ہمدردی اور قبائلی بنیاد پر کاکڑ قبیلے کا ووٹ مل سکتا ہے۔ پشین میں پشتونوں کے کاکڑ قبیلے کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ انہیں برشور کے اسفند یار کاکڑگروپ، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بھی حمایت مل سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت مولانا فضل الرحمان کی مخالفت میں اپنے امیدوار کو خوشحال کاکڑ کے حق میں دستبردار کرا دے۔ایسی صورت میں مولانا فضل الرحمان کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔‘
پشین کے مقامی صحافی سمیع ترین سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے اور ان کے اس حلقے پر کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پشین سے پچھلے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی تینوں نشستیں جے یو آئی نے جیتی تھیں تاہم اس بار صوبائی حلقوں کے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر جمعیت دھڑے بندی کا شکار ہے۔ پشین سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 49 سے جمعیت کے تین امیدوار کھڑے ہیں۔ اس تقسیم کا جے یو آئی کو نقصان ہو سکتا ہے۔
آغا عبید کہتے ہیں کہ ’پشین سے کامیاب ہونے والے جے یو آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی کارکردگی قابل ذکر نہیں رہی۔ 2002 سے اب تک کامیاب ہونےوالے مولوی آغا محمد اور کمال الدین توشاذو نادر ہی قومی اسمبلی میں بولے۔ وہ سب سے کم بولنے والے ایم این ایز میں سے ایک تھے۔ اختلافات اور تقسیم کے ساتھ ساتھ یہ کارکردگی بھی جے یو آئی کے ووٹ بینک پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔‘
جے یو آئی کے امیر نے پشین کا انتخاب کیوں کیا اس حوالے سے آغاعبید کی رائے ہے کہ مولانا فضل الرحمان آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے پشین کی نشست کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہ جمعیت کا محفوظ گڑھ ہے اور یہاں سے 1997 سے مسلسل پانچ مرتبہ جے یو آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے پشاور کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار لحاظ علی کے نزدیک مولانا فضل الرحمان کے پشین سے الیکشن لڑنے کی کئی وجوہات ہیں۔
'ایک تو مولانا صاحب صوبے سے نکل کر میاں نواز شریف، بلاول اور عمران خان کی طرح ایک سےز یادہ صوبوں اور حلقوں سے انتخاب لڑ کر خود کو قومی رہنما کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور ملک گیر رہنما کے طور پر ان کے لیے پنجاب یا سندھ میں ایسا کوئی محفوظ انتخابی حلقہ نہیں جیسا بلوچستان میں ہے۔‘
ان کے بقول ’دوسری وجہ ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقے میں شکست کا خطرہ ہے۔ اپنے مخالفین کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمان علاقے اور حلقے کی سیاست میں ناکام ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان مضبوط حلقہ نہیں رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مولانا فضل الرحمان تک حلقے کے عام ووٹر کی رسائی مشکل ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ان کے حریف علی امین گنڈاپور اور ان کے خاندان کے افراد ہمیشہ حلقے کے عوام کے رابطے میں ہوتے تھے۔ نوجوانوں کے لیے میلوں اور کھیلوں کی سرگرمیوں کے انعقاد، تھانہ کچہری ، بجلی اور سڑکوں جیسے مسائل کے حل میں ذاتی دلچسپی لینے کی وجہ سے بھی انہیں علاقے کی لوگوں میں پذیرائی حاصل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ویسے بھی اس حلقے کی تاریخ دیکھی جائے تو مولانا کبھی جیتتے تو کبھی ہارتے رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں عمر فاروق میاں خیل، 2008 میں فیصل کریم کنڈی اور 2018 علی امین گنڈاپور نے انہیں شکست دی۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ این اے 44 پر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے علی امین گنڈاپور ، ان کے بھائی فیصل امین، پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی، ن لیگ کے وقار احمد خان نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
پچھلے انتخابات میں علی امین گنڈاپور نے مولانا فضل الرحمان کو 36 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اب 2018 کی طرح حالات پی ٹی آئی کے حق میں نہیں لیکن اس کے باوجود بھی اس نشست پر مولانا کا اصل مقابلہ علی امین گنڈاپور یا ان کے متبادل پی ٹی آئی امیدوار سے ہی ہو گا۔
لحاظ علی کے مطابق ’عمران خان کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ علی امین گنڈاپور کی جانب سے حلقے کی کامیاب سیاست نے بھی مولانا فضل الرحما ن کے لیے چیلنجز کھڑے کیے ہیں، ان عوامل، حالات اور ماضی کی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کو آبائی ضلع میں خطرہ تھا اس لیے انہوں نے بلوچستان میں جمعیت کا گڑھ کہلانے والے حلقے کا انتخاب کیا شاید اس بار وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتے۔‘
تاہم جمعیت علمائے اسلام ڈیرہ اسماعیل خان کے جنرل سیکریٹری چوہدری اشفاق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ یہ رسک نہ لینے کی بات نہیں ہے بلکہ عوام کی جانب سے محبت اور اعتماد کا اظہار ہے۔ ایک سے زائد صوبوں اور حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینا کوئی نئی بات نہیں میاں نواز شریف، بلاول اور دیگر رہنما بھی ایسا کرتے آئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے دو بیٹے اور دو بھائی بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔
بیٹا مولانا اسعد محمود این اے 43 ٹانک کم ڈیرہ اسماعیل خان، دوسرا بیٹا اسجد محمود این اے 41 لکی مروت، بھائی مولانا عبیدالرحمان این اے 45 ڈیرہ اسماعیل خان جبکہ دوسرے بھائی لطف الرحمان خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشست پی کے 114 ڈیرہ اسماعیل خان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
یہ بھی خیال جا رہا ہے کہ بھائیوں اور بیٹوں کو پارلیمانی سیاست میں کھپانے کے لیے مولانا فضل الرحمان کے لیے خیبر پختونخوا میں ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا مشکل ہو رہا تھا اس لیے بھی انہوں نے صوبے سے باہر قدم رکھا۔
اس بات کی تائید کرتے ہوئے لحاظ علی کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان کا خاندان بڑ ھ گیا ہے۔ بھائیوں اور ایک کے بعد دوسرے بیٹے کو انتخابی سیاست میں لانے اور بنوں کے حلقہ پر اکرم خان درانی کے انتخاب لڑنے کے فیصلے کے بعد مولانا کے لیے خیبر پختونخوا میں آپشنز کم رہ گئے تھے۔‘
تاہم جے یو آئی کے مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری کہتے ہیں کہ حلقے کے عوام ،جے یو آئی کی ضلعی اور صوبائی قیادت کے پرزور اصرار پر مولانا فضل الرحمان نے پشین سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔