Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ممبئی حملوں کا ٹرائل: انڈیا کا پاکستان سے حافظ سعید کو حوالے کرنے کا مطالبہ

انڈیا حافظ سعید کو بھی ممبئی حملوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا نے 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے شبے میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کو ٹرائل کے لیے باضابطہ طور پر حوالے کرنے کی پاکستان سے درخواست کی ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے جمعے کو ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم نے اس حوالے سے حکومت پاکستان کو متعلقہ دستاویزات کے ساتھ ایک درخواست بھیج دی ہے۔‘
انڈیا نے نام نہاد منی لانڈرنگ کیس میں حافظ سعید کی حوالگی کو مطالبہ کیا ہے: ترجمان دفترِ خارجہ کی تصدیق
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان کے بعد جمعے کو ہی پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے حافظ سعید کی حوالگی سے متعلق اپنا ردِعمل دیا۔
انہوں نے تصدیق کی کہ ’پاکستان نے انڈین حکام کی جانب سے بھیجی گئی ایک درخواست وصول کی ہے جس میں نام نہاد منی لانڈرنگ کیس میں ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان حوالگی کا کوئی دوطرفہ معاہدہ نہیں ہے۔‘
یاد رہے کہ انڈیا کالعدم جماعت الدعوۃ پاکستان کے امیر حافظ سعید کو ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتا ہے۔
حافظ سعید کون ہیں؟
کالعدم جماعت الدعوۃ پاکستان کے امیر حافظ محمد سعید کا تعلق اس خاندان سے ہے جو تقسیمِ ہندوستان کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ہجرت کے دوران ان کے خاندان کے 36 افراد مارے گئے تھے اور خاندان کا کوئی بچہ زندہ نہ رہا۔
قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد یعنی 1948 میں حافظ محمد سعید سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ بچپن سرگودھا میں ہی گزرا جہاں انہوں نے اپنی والدہ سے قرآن حفظ کیا اور گاؤں کے سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لیے اپنے ماموں اور معروف عالم دین حافظ عبداللہ بہاولپوری کے پاس بہاولپور چلے گئے۔ ان کا تعلق اہل حدیث مسلک سے تھا۔
حافظ سعید اپنی جواں عمری سے ہی کافی متحرک تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ان کی سوچ کا زاویہ بدلنے لگا۔ 1986 میں انہوں نے ایک ماہانہ میگزین ’الدعوۃ کی اشاعت کا آغاز کیا، اسی وقت ’مرکز دعوۃ والارشاد ‘کی تشکیل بھی عمل میں آئی۔

ممبئی حملے ہوں یا کشمیر میں بڑی کارروائیاں، انڈین حکومت اور میڈیا لشکر طیبہ کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مرکز الدعوۃ کے زیراہتمام ملک کے مختلف علاقوں میں مدارس کھولے گئے۔ حافظ سعید نے زیادہ توجہ پنجاب کے دیہات اور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر پر مرکوز رکھی۔ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا محور لاہور کے نواح میں واقع مریدکے میں قائم مرکز طیبہ کو بنایا۔
اس دوران انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں آزادی کی تحریک نے جنم لیا۔ حافظ سعید نے کشمیر میں جاری تحریک میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
90 کے عشرے میں ان کے پاس اتنی تعداد میں تربیت یافتہ نوجوان موجود تھے جن کے بل بوتے پر انہوں نے لشکر طیبہ کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے حافظ محمد سعید کی تنظیم لشکرِ طیبہ انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں سرگرم عمل عسکری تنظیموں میں سے ایک موثر گروپ کے طور پر سامنے آئی۔ تنظیم کی زیادہ تر رُکنیت پاکستانیوں کی تھی۔ 
یہ سلسلہ 10 برس چلتا رہا۔ اس دوران لشکر طیبہ کی عسکری کارروائیاں اتنی زیادہ تعداد میں ہونے لگیں کہ خود حافظ سعید اپنی اصل تنظیم جماعت الدعوۃ کے بجائے لشکر طیبہ کے نام سے پہچانے جانے لگے۔

امریکہ نے ممبئی حملوں کے الزام میں حافظ سعید کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نائن الیون کو امریکہ میں ہونے والے حملوں نے پاکستان اور انڈیا میں ان تحریکوں کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا اور کچھ گروہوں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
لشکرِ طیبہ نے پاکستان میں تو کبھی دہشت گردی کی کسی واردات میں حصہ نہیں لیا لیکن انڈیا میں ہونے والے بیشتر حملوں کا الزام لشکر طیبہ پر ہی لگایا جاتا تھا۔
ممبئی حملے ہوں یا کشمیر میں بڑی کارروائیاں، انڈین حکومت اور میڈیا لشکر طیبہ کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ انڈیا نے حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی رجوع کیا۔ اقوام متحدہ نے ان پر سفری اور مالیاتی پابندیاں بھی عائد کیں۔
امریکہ نے بھی ممبئی حملوں کے الزام میں حافظ سعید کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔
نومبر 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان سے لشکر طیبہ کی تنظیم ختم کر کے اس کے دفاتر انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں منتقل کر دیے گئے۔
حافظ سعید نے خود کو ایک بار پھر مرکز الدعوۃ  کے کاموں میں مصروف کر لیا لیکن اس تنظیم کا نام بدل کر ’جماعت الدعوۃ‘ رکھ دیا۔

انڈیا نے حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی رجوع کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2001 سے 2020 تک حافظ سعید کو متعدد مرتبہ حراست میں لیا گیا اور ان کو اُن کے گھر یا سرکاری مقامات پر نظربند بھی کیا گیا۔ وہ ہمیشہ عدالتوں کا رخ کرتے اور انہیں وہاں سے ریلیف مل جاتا۔
سنہ 2008 میں جب جماعت الدعوة پر پابندی لگائی گئی تو ’فلاحِ انسانیت‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور یہ دکھایا گیا کہ یہ ایک فلاحی جماعت ہے اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس تنظیم کے تحت ایمبولینس سروس سمیت پاکستان میں سینکڑوں فلاحی منصوبے چل رہے ہیں۔ ملک میں آنے والی قدرتی آفات و حادثات میں یہ تنظیم کافی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔
جولائی 2019 میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے انہیں لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے گرفتار کیا۔ مسلسل سماعتوں کے بعد لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دو مقدمات میں انہیں مجموعی طور پر 11 سال قید کی سزا سنائی۔
کالعدم لشکر طیبہ کے رہنما ذکی الرحمان لکھوی کو 15 سال قید کی سزا
جنوری 2021 میں لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے مرکزی رہنما ذکی الرحمان لکھوی کو دہشت گردوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے الزام میں مجموعی طور پر 15 سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ 

ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق ’انڈین حکام نے نام نہاد منی لانڈرنگ کیس میں حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے‘ (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)

ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی فورس نے سات دسمبر 2020 کو لاہور میں درج کیا تھا۔ اس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ذکی الرحمان لکھوی اور ان کے قریبی ساتھی ابو انس محسن کو دہشت گردوں کے لیے چندہ اکھٹے کرتے دیکھا گیا۔  
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’ذکی الرحمان لکھوی کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے بانی ارکان میں سے ہیں اور اس تنظیم کو اقوام متحدہ 2002 میں دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
عدالت کے مطابق ان کے خلاف اس مقدمے میں کافی ثبوت ہیں کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہے تھے۔ لہٰذا اس انہیں مجموعی طور پر 15 سال کی سزا سنائی جاتی ہے۔ اس کے علاقہ ان پر تین لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔ ‘ 
 ذکی الرحمان لکھوی پر 2008 میں ممبئی حملے میں بھی ملوث ہونے کا الزام ہے اور اس الزام کے تحت انہیں گرفتار بھی کیا گیا، بعدازاں ان پر مقدمہ بھی چلایا گیا اور فردِ جرم بھی عائد کی گئی، تاہم 2015 میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
وہ ان 15 افراد میں سے ایک ہیں جنہیں ممبئی حملے کے بعد پاکستان نے گرفتار کیا تھا۔ انڈیا نے ان کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا لیکن پاکستان نے انکار کرتے ہوئے ان پر خود مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا۔  

شیئر: