Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خاتون نے آئس لینڈ کے گرد 1400 کلومیٹر سائیکلنگ کا سفر مکمل کر لیا

یاسمین ادریس کا کہنا ہے کہ وہ سعودی خواتین کی نمائندگی کرنے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)
رواں برس کے آغاز میں آئس لینڈ میں سائیکلنگ کے سفر پر نکلنے والی یاسمین ادریس پہلی عرب خاتون بن گئی ہیں جنہوں نے 14 سو کلومیٹر کا صبر آزما سفر سائیکل پر مکمل کر لیا ہے۔
آئس لینڈ کے رنگ روڈ پر ان کے پورے سفر کو دستاویزی فلم ’تھریش ہولڈ‘ میں فلمایا گیا ہے جو 2024 میں ریلیز ہو گی۔
اس پورے سفر میں یاسمین ادریس نے تیز ہواؤں کا سامنا کیا تاہم وہ اپنے سفر پر آگے بڑھتی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ رنگ روڈ کے سفر نے انتہائی بے رحمانہ استقبال کیا تھا۔
ان کے قریبی دوست اور روڈ پر دو ساتھیوں میں سے ایک کیتھی ہینڈرک نے یاسمین ادریس سے کہا کہ ’ہوا فعال رکھتی ہے اور آپ کو حرکت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ بیدار رہنے پر مجبور کرتی ہے ورنہ آپ گر جائیں گی۔‘
کیتھی ہینڈرک نے یاسمین ادریس کا ساتھ دیا اور آنے والی دستاویزی فلم کے لیے بیانیہ بنانے میں مدد کی جبکہ میڈیسن ہوفمین مرکزی فلم ساز تھیں۔
یاسمین ادریس کا کہنا ہے کہ ہم تینوں ایک جیسی چیز سے گزر رہے تھے۔ تاہم وہ گاڑی میں سوار تھیں اور میں سائیکل پر تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب خواتین اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں تو اس تجربے کو دیکھ کر اچھا محسوس ہوتا ہے۔
یاسمین ادریس نے ایک پائیدار فٹ ویئر کمپنی کے سربراہ کے طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ جو ان کے خیال میں ان کی پسندیدہ ملازمت تھی۔

یاسمین ادریس نے بطور سعودی خاتون 14 سو کلومیٹر سائیکلنگ کر کے تاریخ رقم کر لی ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ روزمرہ کی زندگی کی ذمہ داریوں سے خود کو الگ کر کے اور خاندان اور دوستوں سے منقطع ہو کر بائیک پر 20 دن سے زیادہ کا یہ سفر اپنی ذات کی تلاش کا سفر تھا۔
یاسمین ادریس اب کام کے شدید اوقات اور سماجی ذمہ داریوں کے دوران لوگوں کا اپنے لیے وقت نکالنے کی وکالت کر رہی ہیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کے لیے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں آرام کی بھی ضرورت ہے اور ہمیں اپنا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

یاسمین ادریس کے مطابق بائیک پر 20 دن سے زیادہ کا سفر اپنی ذات کی تلاش کا سفر تھا۔ (فوٹو: عرب نیوز)

ان کا کہنا ہے کہ وہ سعودی خواتین کی نمائندگی کرنے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔
’مجھے ایسا نہیں لگتا کہ میں پہلی خاتون ہوں۔ یہاں بہت سی زبردست سعودی خواتین ہیں جنہوں نے میرے لیے راہ ہموار کی ہے، جنہوں نے حیرت انگیز کام کیے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر میں دوسروں کو آگے بڑھنے پر ترغیب دے سکتی ہوں چاہے وہ واک پر جانا ہو یا رھا محرق کی طرح ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنا ہو تو میں سمجھوں گی کہ میں نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے۔  

شیئر: