قاسم کے ابا جب خود اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں حمید کی اماں نظر نہیں آتیں، نگراں وزیراعظم
نگراں وزیر اعظم انوار الحق نے سیاستدانوں کے حوالے سے کہا ہے کہ جب وہ خود چند ریاستی اداروں سے مستفید ہوتے ہیں تو انہیں والد کا درجہ دے دیتے ہیں اور مستفید نہ ہونے کی صورت میں سوتیلا باپ بنا دیتے ہیں۔
منگل کو لاہور کی ایک یونیورسٹی میں طلبا سے بات چیت میں وزیر اعظم انوار الحق نے کہا کہ اگر کسی ادارے کو والد کا درجہ نہیں دینا تو ایک دفعہ فیصلہ کرنا ہوگا اور پھر نان نفقے کی ذمہ داری بھی خود اٹھانا ہوگی۔
نگراں وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ یوسف رضا گیلانی یا نواز شریف کو ہٹانا ہو یا پھر قاسم کے ابا کو گرفتار کرنا ہو تو رات کے بارہ بجے بھی عدالتیں کھول دی جاتی ہیں لیکن ریپ یا نور مقدم جیسے کیسز میں عدالتیں بند رہتی ہیں، اس کے جواب میں انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ’نظام عدل پر بہت سنگین سوالات ہیں اور جب تک اس کو ٹھیک نہیں کریں گے تو چاہے کسی کا ابا ہو، اماں، باجی یا خود تو محفوظ رہنا مشکل ہے۔‘
’مسئلہ یہ ہے کہ جب قاسم کے ابا خود (اقتدار میں) ہوتے ہیں تو انہیں حمید کی اماں بالکل نظر نہیں آتیں۔‘
انہوں نے کہا کہ جب وہ خود اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں سب کچھ درست نظر آتا ہے اور جب اقتدار سے ہٹتے ہیں تو سب غلط دکھائی دینا شروع ہو جاتا ہے۔
نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’یہ رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اصولوں کو ماننا ہو گا، پھر چاہے ان کا اطلاق مجھ پر ہو یا آپ پر، اصول یکساں ہوں گے۔‘
اسلام آباد میں موجود بلوچ لانگ مارچ کے مظاہرین کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ احتجاج کا حق سب رکھتے ہیں لیکن جب اشتعال انگیزی کریں گے تو ریاست کو قانون نافذ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’مظاہرین پر واٹر کینن سے پانی پھینکنے اور لاٹھی چارج کرنے پر سب سے زیادہ تنقید ہوئی، یورپی ممالک میں 200 سے زائد ایسے کیسز ہو چکے ہیں جہاں صورتحال پر قابو پانے کے لیے واٹر کینن کا استعمال ہوا، ہم نے بچوں یا خواتین پر گولیاں نہیں برسائیں اور نہ ہی کوئی شدید نوعیت کا قدم اٹھایا۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ انہیں موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے پتھراؤ کیا تھا جس کے جواب میں واٹر کینن کا استعمال ہوا اور لاٹھی چارج کیا گیا، اس کے بعد گرفتاریاں ہوئیں اور 48 سے 72 گھنٹوں میں رہا کر دیا گیا۔