Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد ہائی کورٹ کا بلوچ مظاہرین کو پریس کلب کے باہر سے نہ ہٹانے کا حکم

بلوچ مظاہرین نے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا ہوا ہے۔ فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کو نیشنل پریس کلب کے باہر سے نہ ہٹانے کا حکم دیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے احکامات جاری کیے کہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیے ہوئے بلوچ مظاہرین کو ہراساں نہ کیا جائے۔
بلوچ مظاہرین نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے مسلسل ہراساں کیے جانے کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد ’مبینہ جبری گمشدگیوں‘ اور ’ماورائے عدالت ہلاکتوں‘ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے 1600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ضلع تُربت سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ تقریباً دو ہفتوں سے بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
درخواست گزار خاتون سمی دین بلوچ کی جانب سے وکیل عطا اللہ کنڈی نے عدالت کو بتایا کہ دھرنے کی خواتین شرکا کو زبردستی بسوں کے ذریعے واپس بھیجنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وکیل عطا اللہ کنڈی نے بتایا کہ گرفتار کی گئی تمام خواتین کو رہا کر دیا گیا لیکن پولیس پھر بھی ہراساں کر رہی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچستان سے آنے والی فیملیز کے متعلق استفسار کیا جس پر وکیل عطا اللہ کنڈی نے بتایا کہ وہ پریس کلب کے باہر ٹھہری ہوئی ہیں۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس ہراساں کرتی ہی، سپیکر اٹھا لیتی ہے اور رات کو تنگ کرتی ہے۔
عطا اللہ کنڈی نے دوبارہ آپریشن شروع ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر بلوچستان کے اکثر شہروں میں بازار بند رہے۔ فوٹو: اردو نیوز

جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی آپریشنز کو 5 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر شٹر ڈاؤن ہڑتال
کوئٹہ سے اردو نیوز کے نمائندے زین الدین احمد نے بتایا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر اسلام آباد میں مظاہرین کو ہراساں کرنے، لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت دیگر مطالبات پورے نہ ہونے پر بلوچستان کے مختلف شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ہے۔
کوئٹہ میں ہڑتال جزوی طور پر کامیاب رہی تاہم شہر کے مرکزی علاقوں میں دکانیں کھلی رہیں۔ سریاب روڈ، ہزار گنجی، سریاب مل، قمبرانی، سبزل روڈ اور ملحقہ نواحی علاقوں میں دکانیں، مارکیٹیں اور تجارتی مراکز بند رہے۔
مستونگ، قلات، سوراب، خضدار، گوادر، تربت، پنجگور، واشک، ماشکیل، چاغی، حب، بیلہ، کوہلو اور دیگر شہروں میں ہڑتال کے باعث بیشتر دکانیں اور مارکیٹیں بند رہیں۔ 
اسلام آباد میں احتجاج کرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مطالبات تسلیم کیے جانے کے لیے دی گئی مدت ختم ہونے پر 3 جنوری کو پورے پاکستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی تھی۔ 
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے بلوچ نوجوان بالاچ مولا بخش کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج کو چالیس دن سے زائد ہوگئے ہیں۔ تربت میں دو ہفتے احتجاج کرنے کے بعد مظاہرین نے کوئٹہ اور پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور 20 دسمبر سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں اور بے گناہ لوگوں کے قتل کے خلاف ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ 3 جنوری کو الٹی میٹم کا آخری دن ہے، مطالبات نہ پورے ہونے پر ہڑتال کی اپیل کی ہے۔

بلوچ نوجوان بالاچ مولا بخش کے قتل کے خلاف احتجاج شروع ہوا تھا۔ فوٹو: اردو نیوز

ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے کیمپ کے شرکاء کو ہراساں کیا جا رہا ہے جبکہ ضرورت کی اشیا جیسے کمبل اور کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی خدشہ ہے لیکن مطالبات پورے ہونے تک احتجاج ختم نہیں کریں گے۔

شیئر: