’پے پال‘ پاکستان میں اپنی براہ راست سروسز کیوں نہیں شروع کر رہا؟
’پے پال‘ پاکستان میں اپنی براہ راست سروسز کیوں نہیں شروع کر رہا؟
اتوار 7 جنوری 2024 20:59
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
ماہرین کے مطابق سکیورٹی مسائل پے پال کی سروسز کو پاکستان لانے میں رکاوٹ ہیں۔ فوٹو: فری پِکس
سنیچر کو پاکستان سے بیرون ممالک فری لانسنگ کا کام کرنے والے شہری یہ خبر سن کر اظہار مسرت کر رہے تھے کہ اب ’پے پال‘ پاکستان میں اپنی سروسز شروع کر رہا ہے، جس کے بعد انہیں کسی بھی ملک سے رقم ملنے میں آسانی ہو گی مگر حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے۔
پے پال پاکستان میں براہ راست اپنی سروسز نہیں شروع کرے گا۔
پاکستان کی وزارت آئی ٹی کے اعلی حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ نگران وزیر آئی ٹی ڈاکٹر عمر سیف نے ہے پال کی پاکستان میں براہ راست سروسز شروع کرنے کی بات نہیں کی۔اس کے برعکس اُن کا کہنا تھا کہ پے پال پاکستان میں تھرڈ پارٹی کے ذریعے ادائیگیاں کرے گا۔
حکام کے مطابق پے پال اس وقت پاکستان نہیں آرہا لیکن اسٹریٹجک پارٹنر کے ذریعے پاکستان میں ادائیگیوں پر رضامندی ہوگئی ہے۔تھرڈ پارٹی کے ذریعے پاکستان میں صرف ادائیگیاں کی جائیں گی۔
پے پال کیسے کام کرتی ہے؟
پے پال دنیا میں آن لائن رقوم اور ترسیل کے لیے سب سے بڑی امریکی کمپنی ہے جو دنیا بھر میں آن لائن رقم کی منتقلی کرتی ہے۔ کمپنی آن لائن وینڈرز، نیلامی سائٹس اور بہت سے دوسرے تجارتی صارفین کے لیے ادائیگی کے پروسیسر کے طور پر کام کر رہی جس کا وہ معاوضہ بھی لیتی ہے۔
پے پال کا تھرڈ پارٹی سے معاہدہ کب تک متوقع ہے؟
حکام کے مطابق پے پال کی تھرڈ پارٹی معاہدے کے حوالے سے تقریب 11 جنوری کو ہوگی۔ اس مناسبت تیاریاں جلد مکمل کر لی جائیں گی۔ تھرڈ پارٹی کے ذریعے بھی ادائیگیوں سے فری لانسرز کو فائدہ ہوگا۔
پے پال کی پاکستان میں ’پائیونیر‘ کے ساتھ شراکت داری کا معاہدہ
پے پال پاکستان میں براہ راست اپنی سروسز شروع کرنے کی بجائے پائیونیر نامی موجودہ ادائیگیوں کی سروس کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے کام کرے گی۔ دونوں کمپنیوں کی شراکت داری سے ہے پال کو پائیونیر کے صارفین کو ادائیگی کی اجازت مل سکے گی۔
پے پال پاکستان میں براہ راست سروسز کیوں نہیں شروع کر سکتی؟
پاکستان میں پے پال کی مکمل سروسز شروع کرنے کے لیے حکومتی سطح پر سالوں سے کوششیں جاری ہیں۔ اس سے قبل وزارت آئی ٹی کے قلمدان سنبھالنے والے وزراء پے پال کو پاکستان لانے میں حائل رکاوٹییں دور کرنے پر زبانی جمع خرچ کرتے رہے مگر عملاً ایسا کچھ نہ ہو سکا۔
پے پال کا پاکستان میں کام شروع نہ کرنا بنیادی طور پر الیکٹرانک منی اداروں کے لائسنسنگ نظام سے وابستہ سمجھی جانے والی پابندیوں، منی لانڈرنگ کے خدشات اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان پر عائد پابندیوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان فری لانسرز کی ایک بڑی مارکیٹ
پاکستان میں فری لانسنگ کے ذریعے کام کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں فری لانسرز کی تعداد 15 لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ پاکستان کو دنیا میں چھوتھی بڑی مارکیٹ بناتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان کی سربراہ نگہت داد نے سمجھتی ہیں کہ اس وقت پے پال کی تھرڈ پارٹی کے ذریعے اپنی سروسز مستقبل میں پے پال کی براہ راست سروسز کا موجب بن سکتی ہے۔
’پاکستان کو آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کے لیے پائیدار پالسیوں پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ جب تک باہر سے آنے والی کمپنیوں کے تحفظات دور نہیں کیے جائیں گے عالمی کمپنیاں یا تو پاکستان آئیں گی نہیں یا پھر مشروط طور پر اپنی سروسز فراہم کریں گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں یا آئی ٹی کے بزنسز کو پاکستان میں لانے کے ریگولیٹری فریم ورک میں سقم دور کرنے ہوں گے۔ ’مخصوص قوانین کو تبدیل کرنے کیے بغیر کمپنیاں پاکستان آنے سے محتاط رہیں گی۔ حکومت کو ڈیٹا پروٹیکشن ریجیم شروع کرنا ہو گی تا کہ عالمی کمپنیوں کو تحفظات دور ہوں۔‘
ماہر آئی ٹی امور مسعود رضا نے اُردو نیوز کو بتایا کہ پے پال کی پاکستان میں براہ راست سروسز شروع کرنے میں بڑی رکاوٹ سکیورٹی مسائل ہیں۔ پاکستان میں منی لانڈرنگ اور اس پر فیٹف کے تحفظات عالمی کمپنی کی عدم دلچسپی کی وجہ ہے۔
’حکومتی سطح پر پے پال کے ساتھ براہ راست معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں کمپنی کو یقین دہانی کروائی جائے کہ ہم صارفین کی اسکروٹنی کریں گے تا کہ وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں۔‘