’فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کے ساتھ پرامن تعلقات نہیں ہوسکتے‘
ان کا کہنا تھا’ جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششیں ناکافی ہیں۔‘( فوٹو: سکرین گریب)
برطانیہ میں متعین سعودی سفیر شہزادہ خالد بن بندر نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔‘
بی بی سی ریڈیو 4 کے ’آج‘ پروگرام میں بات کرتے ہوئے سعودی سفیر نے کہا ’سات اکتوبر کو حماس کے حملے سے پہلے سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ معمول پر آنے والے ایک معاہدے کے قریب تھا لیکن کوئی بھی معاہدہ آزاد فلسطین کے قیام پر منحصر ہے۔‘
العربیہ نیٹ کے مطابق انہوں کہا کہ ’غزہ میں جنگ کے بعد والی صورتحال کا کوئی مثالی حل نہیں۔ عالمی برادری ابھی تک جنگ بندی پر ہی متفق نہیں ہوئی۔ سب سے پہلے تو جنگ بندی ہی ضروری ہے۔‘
شہزادہ خالد بن بندر نے کہا ’ فلسطینی اتھارٹی کے پاس غزہ میں کام کے لیے بہت سارے ذرائع ہیں۔ عالمی برادری کو بھی اس سلسلے میں اپنا وجود ثابت کرنا ہوگا۔‘
’عالمی برادری کا کردار فلسطینیوں اوراسرائیل کے ساتھ مکالمے کے ذریعے طے کیا جانا ضروری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انتہا پسندی کے بارے میں تشویش کا دائرہ سعودی عرب تک محدود نہیں بلکہ تشویش سب کو ہے۔‘
سعودی سفیر نے زور دے کر کہا کہ ’فریقین کی جانب سے جس قدر تشدد کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ غزہ کے 80 فیصد سے زیادہ باشندے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے جبکہ 20 ہزار سے زیادہ ہلاک کردیے گئے۔ ‘
سعودی سفیر نے کہا کہ’ اسرائیلی حکومت ابھی تک جنگ کا پہلا مرحلہ مکمل کرنے کی بات کررہی ہے۔ پتہ نہیں جنگ بندی کے لیے کتنی جانوں کی قربانی چاہئے۔‘
ان کا کہنا تھا’ جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششیں ناکافی ہیں۔‘
برطانیہ کے موقف سے متعلق سوال پر سعودی سفیر نے کہا’ خواہش ہے کہ برطانیہ اپنے موقف میں مزید اعتدال لائے۔ پوری دنیا اسرائیل کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے جیسا دوسروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘
’ جو کچھ اسرائیل نے کیا ہے اگر کوئی اور ایسا کرتا تو اسے عالمی برادری سے کاٹ دیا جاتا۔ آپ لوگوں کو پابندیوں کے بارے میں بات کرتے دیکھتے۔‘
شہزادہ خالد بن بندرکا کہنا تھا ’اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت 7 اکتوبر کو حماس حملے سے قبل ہورہی تھی۔‘
سعودی سفیر نے کہا کہ’ فریقین کے درمیان بات چیت میں اہم پہلو اس کا حتمی نتیجہ ہے۔ خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام سے کم پر رضامندی ناقابل قبول ہے۔ فلسطینیوں کی قیمت تعلقات معمول پر نہیں لائے جاسکتے۔‘
سعودی سفیر نے یہ بھی کہا کہ’ وہ نہیں سمجھتے کہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے روکنے کے لیے حملہ کیا۔‘
’جو کچھ ہوا اس میں منصوبہ بندی، محرکات اور دیگر امور کے حوالے سے طویل وقت لگا۔ ان میں فلسطینی اراضی پر اسرائیل کا مسلسل غاصبانہ قبضہ سرفہرست ہے۔ تنازعے کی تاریخ سو سال پرانی ہے۔ یہی 7اکتوبر کے حملے کا سبب ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سات اکتوبر کے حملے کے باوجود سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر یقین رکھتا ہے۔ یہ دلچسپی 1982 میں شاہ فہد منصوبے سے شروع ہوئی جس نے عرب امن منصوبے کی سوچ دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ’ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کے ساتھ پرامن تعلقات نہیں ہوسکتے۔ فلسطینی عوام کے مفادات سب سے اہم ہیں۔‘
سعودی سفیر سے پوچھا گیا کہ آیا فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے مذاکرات معطل رہیں گے؟۔
شہزادہ خالد بن بندر نے کہا ’مذاکرات معطل ہی ہیں۔ سات اکتوبر کے حماس حملے سے قبل صورتحال تعلقات کو معمول پر لانے کے قریب ہوگئی تھی اور فلسطینی ریاست کے قیام تک رسائی کے قریب پہنچ چکے تھے۔‘
’خود مختار، مستحکم اور بااختیار فلسطینی ریاست کے بغیر کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی۔‘
اس سوال پر کہ آیا ان کے خیال میں حماس تحریک غزہ میں جنگ کے سیاسی حل کا حصہ ہوگی۔
سعودی سفیر نے کہا کہ ’صورتحال بہت زیادہ غوروفکر اور بہت کام کی ضرورت ہے۔‘
’ اگر آج ہم آئرلینڈ پر نظر ڈالتے ہیں تو برطانیہ میں چالیس برس قبل اس کے بڑے حصے کو دہشت گرد کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ اگر امید ہو تو ایسی صورت میں تبدیلی کی بڑی گنجائش ہوتی ہے۔‘
سعودی سفیر نے کہا کہ ’آج مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت جس سے پوری دنیا معاملہ کررہی ہے وہ انتہا پسندانہ سوچ رکھتی ہے۔ وہ تصفیے کے حوالے سے کام نہیں کررہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تنازع ختم نہیں ہوگا۔‘