Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

این اے 130: نواز شریف کا آبائی حلقہ جہاں انتخابی مہم شروع نہ ہو سکی

پاکستان مسلم لیگ ن نے عام انتخابات کے لیے بیشتر حلقوں سے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے بھی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی سکروٹنی کا مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔
جن امیدواروں کے کاغذات کو چیلنج کیا گیا، ٹریبینولز نے ان کے فیصلے بھی کر لیے ہیں۔ نواز شریف پر تاحیات نااہلی کی رکاوٹ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہٹ گئی جس کی بنیاد پر ٹریبیونل میں ان کے خلاف درخواست بھی خارج ہو چکی ہے۔ 
تاہم لاہور سے نواز شریف کے آبائی حلقے این اے 130 میں ابھی مکمل خاموشی ہے۔ نہ تو مسلم لیگ ن نے انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے نہ ہی کسی اور جماعت نے۔ کہیں کہیں جماعت اسلامی کے ایک دو بینرز اور اشتہار دکھائی دے رہے ہیں۔ 

حلقہ این اے 130 کے خدوخال 

لاہور کا حلقہ این اے 130 شہر کے تاریخی علاقوں پر مشتمل ہے اور اس کی کُل آبادی تقریباً 9 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ 
لوئر مال انارکلی سے شروع ہونے والا یہ حلقہ ایم او کالج، جین مندر، چرچ روڈ، مزنگ اور گنگا رام ہسپتال تک جاتا ہے۔ پریم نگر، راج گڑھ، ریوز گارڈن اور شام نگر چوبرجی کے علاقے بھی اسی حلقے میں آتے ہیں۔ 
گنجان آباد اسلام نگر (پرانا کرشن نگر)، گنج بخش روڈ، سنت نگر، ساندہ، رام نگر، دیوسماج، آؤٹ فال روڈ اور گلشن راوی کے کچھ علاقے بھی حلقہ این اے 130 کا حصہ ہیں۔
آزادی چوک اور مینار پاکستان بھی اسی حلقے میں ہیں۔ موہنی روڈ، راوی روڈ، قریشی محلہ، مچھلی منڈی، پیسہ اخبار، گوالمنڈی، شاداب کالونی اور کوٹ عبداللہ تک کے علاقے بھی اسی حلقے کا حصہ ہیں۔ 
1985 سے 1997 تک اس حلقے کا نمبر این اے 95 تھا جبکہ 2002 میں اس کو این اے 120 کر دیا گیا۔ 2018 میں اسے این اے 125 اور اب سال 2024 میں اس حلقے کو این اے 130 کا نمبر الاٹ کیا گیا ہے۔ 

2018 میں یاسمین راشد نے این اے 130 سے ایک لاکھ 5 ہزار ووٹ لیے تھے۔ (فوٹو: ٹوئٹر یاسمین راشد)

تاریخی پس منظر

 الیکشن کمیشن کی موجودہ حلقہ بندیوں میں لاہور کا این اے 130 نواز شریف کا آبائی انتخابی حلقہ مانا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ان کی پیدائش گوالمنڈی کے علاقے رام گلی میں ہوئی تھی۔
محقق اور الیکشن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اور اسی حلقے کے شہری ڈاکٹر شہباز حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نواز شریف نے 1985 میں جب اپنی سیاست کا آغاز کیا تو اس وقت اس حلقے کا نام 95 تھا۔ انہوں نے مسلسل پانچ انتخابات میں یہاں سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔ 85 کے انتخابات میں وہ اسی حلقے سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی تھے۔ وزیر اعلٰی بننے کے لیے انہوں نے قومی اسمبلی والی نشست چھوڑ دی تھی۔‘ 
ڈاکٹر شہباز حیدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس حلقے کا نمبر پرویز مشرف کے مارشل لا میں ہونے والے 2002 کے انتخابات میں این اے 120 ہو گیا تھا۔
’جو چند نشستیں مسلم لیگ ن نے جیتی تھیں اس میں یہ سیٹ بھی تھی، اس وقت پرویز ملک نے یہاں سے 33 ہزار ووٹ لیے تھے۔ اس وقت تو پیپلزپارٹی کا بھی بڑا ووٹ تھا ان کے امیدوار الطاف قریشی نے 20 ہزار ووٹ لیا تھا اور ق لیگ اس حلقے میں تیسرے نمبر پر آئی تھی۔ 2008 کے عام انتخابات میں بلال یٰسین نے یہ سیٹ جیتی تھی۔ جبکہ 2013 میں چھٹی مرتبہ میاں نواز شریف نے پھر اسی نشست کا انتخاب کیا تھا اور اب وہ ساتویں مرتبہ یہاں سے امیدوار ہیں۔‘ 

حلقہ این اے 130 کی کُل آبادی تقریباً 9 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یاسمین راشد ایک بار پھر مقابلے میں

سیاسی مبصرین کے مطابق یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے مسلم لیگ ن گزشتہ چار دہائیوں سے نہیں ہاری ہے۔ 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے یہاں سے نواز شریف کا مقابلہ کیا تھا۔ انہوں نے 52 ہزار ووٹ لیے تھے جبکہ نواز شریف 91 ہزار ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔
سال 2018 کے انتخابات میں نواز شریف جیل میں تھے اور ڈاکٹر یاسمین نے دوسری مرتبہ اسی حلقے سے الیکشن لڑا اور وہ ایک لاکھ پانچ ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئیں لیکن ان کے مدمقابل ن لیگ کے وحید عالم ایک لاکھ 23 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ 
اس بار اب ڈاکٹر یاسمین راشد جیل میں ہیں اور الیکشن ٹریبیونل نے ان کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کر لیے ہیں۔ انتخابات میں ایک مہینے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے تاہم اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اس حلقے میں انتخابی مہم کا آغاز ابھی تک نہیں ہو سکا۔

شیئر: