Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹکٹوں کی تقسیم: ن لیگ کے نظرانداز اور نوازے جانے والے رہنما

بعض حلقوں میں دوسری جماعتوں میں جانے والے امیدوار بھی ن لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن نے 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹکٹ ملنے والے امیدواروں میں جہاں کئی سیاسی خاندان ایک سے زائد ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے وہیں ن لیگ نے اپنے مضبوط امیدواروں کو بھی ٹکٹ سے محروم کرتے ہوئے غیر معروف مگر طاقتور لوگوں کو ٹکٹ سے نواز ہے۔  
بعض حلقوں میں پارٹی بیانیے کی مخالفت کرتے ہوئے دوسری جماعتوں میں جانے والے امیدوار بھی ن لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔  
جس کے بعد سوشل میڈیا پر نہ صرف لیگی کارکنان بلکہ سنجیدہ سیاسی حلقوں کی جانب سے ن لیگ کی حکمت عملی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں؟  
مسلم لیگ ٹکٹوں کی تقسیم میں کن محرکات کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے؟  
پاکستان مسلم لیگ ن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت پارٹی وابستگی سے زیادہ زمینی حقائق، شریف برادران کے ساتھ ذاتی تعلق یا پھر مالی طور پر مستحکم افراد کو ہی ترجیح دیتی ہے۔  
ن لیگ کی جانب سے ٹکٹوں کی حالیہ تقسیم اور حکمت عملی بارے سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’عملیت پسندی مسلم لیگ ن کی انتخابی حکمت عملی کا بنیادی جزو ہے۔ ہمیں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں جب کارکن یا پرانے رہنما کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بااثر پیرا شوٹر کو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ اس لیے موجودہ حالات میں مسلم لیگ ن حکومت تک اپنے راستے کو ہموار بنانے کے لیے کسی بھی کارکن یا رہنما کو قربان کر سکتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ ساتھ پارٹی وابستگی، نظریات، اپوزیشن کے دنوں کے ساتھیوں کے بجائے زیادہ اثرورسوخ رکھنے والوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی ٹکٹوں کے اعلان میں ’پریکٹیکل اپروچ‘ زیادہ نظر آ رہی ہے تاکہ اقتدار کے ایوانوں میں پہچنے میں آسانی ہو۔‘
اس پر دلیل دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر ضلع گجرات سے امیدوار نصیر سدھو کے بھائی ظہیر بابر سدھو اگر ایئر چیف نہ ہوتے تو کیا ان کی اتنی انتخابی صلاحیت تھی کہ انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملتا؟‘
ن لیگ کی جانب سے نظر انداز کیے جانے والے ن لیگی رہنما کون کون سے ہیں؟ 
مسلم لیگ ن نے اپنے جن رہنماؤں کو پارٹی ٹکٹ دینے سے انکار کیا ہے ان میں دانیال عزیز، طلال چودھری، چودھری جعفر اقبال، رانا احسان افضل، ذیشان نقوی، عائشہ رجب بلوچ، حامد حمید اور کچھ دیگر رہنما شامل ہیں۔  

پارٹی فیصلے کے بعد دانیال عزیز نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے (فوٹو: فیس بک دانیال عزیز)

دانیال عزیز  
نارووال، شکرگڑھ سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان چوہدری عزیز کے فرزند دانیال عزیز سابق رکن قومی اسمبلی ہیں۔ 2013 میں ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر انھوں نے نواز شریف اور مریم نواز کی بیانیہ ٹیم کے سرخیل کھلاڑی کے طور پر خود کو منوایا، لیکن 2018 کے انتخابات سے قبل اپنے بیانات کی وجہ سے توہین عدالت کے مرتکب قرار دے کر نا اہل کر دیے گئے۔  
ان کی نا اہلی کے دوران ان کی اہلیہ مہناز عزیز نے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچیں۔  
ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر اختلاف کے بعد دانیال عزیز نے مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کے خلاف بیانات دیے۔ پارٹی نے ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ جس کے جواب میں انھوں نے احسن اقبال پر الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پارٹی پالیسی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔  
ن لیگ کے پارلیمانی بورڈ نے انھیں ٹکٹ دینے سے انکار کرتے ہوئے نہ صرف انھیں ٹکٹ نہیں دیا بلکہ جس صوبائی حلقے کے ٹکٹ کا تنازعہ تھا وہاں پر بھی احسن اقبال کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ پہلے احسن اقبال اس صوبائی حلقے سے اپنے بیٹے کو الیکشن لڑوانا چاہتے تھے۔
پارٹی فیصلے کے بعد دانیال عزیز نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔  
چوہدری جعفر اقبال  
ضلع گجرات کے قصبہ ڈنگہ سے تعلق رکھنے والے 2002 میں مسلم لیگ ن کے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ پر عملی سیاست میں شامل ہونے والے چوہدری جعفر اقبال نے 2013 میں پارٹی کے فیصلے کے تحت قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ کو 50 ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔  
وہ پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع بھی رہے اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں انھیں وزیرمملکت برائے پورٹس اینڈ شپنگ کا قلمدان بھی سونپا گیا تھا۔ 

چوہدری جعفر اقبال نے پارٹی فیصلے کے بعد فی الحال خاموشی اختیار کی ہے (فوٹو: جعفر اقبال فیس بک)

2005-6  میں نواز شریف نے جلا وطنی کے دور میں جدہ سے لندن منتقل ہونے کے بعد جو پہلی سیاسی سرگرمی کی تھی وہ انھوں نے ناروے میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب اور یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس تقریب کی میزبانی چوہدری جعفر اقبال نے کی تھی اور نواز شریف چوہدری جعفر اقبال کی دعوت پر لندن سے ناروے گئے تھے۔ 
2018  میں وہ پی ٹی آئی کے امیدوار سے ہار گئے، لیکن پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ سے اس بار بھی 30 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ ٹی وی پروگرام اور پارٹی اجلاسوں میں بھرپور نمائندگی کی وجہ سے انھیں پارٹی میں مقام حاصل تھا، لیکن پارٹی نے نسبتاً ایک غیر معروف امیدوار چوہدری نصیر عباس سدھو کو ٹکٹ دے کر سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے۔  
چوہدری جعفر اقبال نے پارٹی فیصلے کے بعد فی الحال خاموشی اختیار کی ہے اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کریں گے، تاہم بظاہر انھوں نے پارٹی کے فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے۔  
طلال چوہدری  
فیصل آباد، جڑانوالہ سے طلال چوہدری کا شمار بھی مسلم لیگ ن کے ان رہنماوں میں ہوتا ہے جو پارٹی بیانیے کی ترویج بغیر کسی لگی لپٹی کے کرتے رہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد وہ بھی پارلیمانی سیکریٹری بنے اور مریم نواز کے ساتھ پارٹی ترجمانوں کی فہرست میں نمایاں ہوئے۔  
اپنے سیاسی مخالفین پر تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے معروف طلال چودھری کو بھی شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے داخہ بنایا گیا۔ 2018  کی انتخابی مہم کے دوران ایک جلسے مین عدلیہ مخالف بیان کے بعد سپریم کورٹ نے انھیں نااہل کر دیا تھا۔  
ابھی تک ن لیگ نے طلال چوہدری کو بھی ٹکٹ نہیں دیا اور امکان یہی ہے کہ ان کی جگہ پر تحریک انصاف سے ن لیگ میں آنے والے نواب شیر وسیر کو ٹکٹ ملے گا۔  
رانا احسان افضل  
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرمملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل مرحوم کے صاحبزادے رانا احسان افضل سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ نجمہ افضل بھی صوبائی اسمبلی کی رکن رہیں۔  

پارٹی نے رانا احسان افضل پر راجا ریاض کو ترجیح دیتے ہوئے انھیں  قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینا مناسب سمجھا (فوٹو: رانا احسان ایکس)

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے اکنامکس میں گریجوایشن کرنے والے رانا احسان افضل 2018 میں فیصل آباد سے اپنے والد کی نشست پر کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچے اور پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رہے۔ 
وہ بھی مسلم لیگ کی جانب سے حلقہ این اے 104 سے امیدوار تھے، لیکن پارٹی نے ان پر قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف راجا ریاض کو ترجیح دیتے ہوئے انھیں ٹکٹ دینا مناسب سمجھا۔  
ذیشان نقوی  
اسلام آباد کے سابق ڈپٹی میئر ذیشان نقوی نے ن لیگ کے مسلسل دو انتخابات ہارنے والے انجم عقیل کی جگہ پر پارٹی کے ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا تھا۔
مقامی سطح پر انھیں نہ صرف پارٹی کے نوجوانوں کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی بلکہ تحریک انصاف کے بلدیاتی رہنماوں نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر رکھا تھا۔  
ن لیگ کی جانب سے نوجوانوں کو ٹکٹ دینے کے اعلان کے بعد ذیشان نقوی پارٹی ٹکٹ کے لیے پرامید بھی تھے اور انھوں نے بھرپور انتخابی مہم بھی شروع کر رکھی تھی، لیکن ن لیگ نے انجم عقیل کو ٹکٹ دے کر ذیشان نقوی کو ٹکٹ سے محروم کر دیا ہے۔  
ذیشان نقوی نے اگرچہ پارٹی فیصلے کو تسلیم کیا ہے لیکن پارٹی کے اندرونی تنازعات کی وجہ سے ن لیگ کے انجم عقیل کے لیے اپنی سیٹ جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔  
عائشہ رجب بلوچ  
کینسر کے باوجود قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کرکے نواز شریف کو ووٹ دینے والے رجب علی بلوچ کی اہلیہ کو پہلے پارٹی نے مخصوص نشستوں پر ٹکت دینے سے محروم کیا۔ بعد ازاں ان کے شوہر کی سیٹ پر انھیں یا ان کے بیٹے روشان بلوچ کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔  
فیصل آباد ڈویژن کے لیے جاری ہونے والے ٹکٹ ہولڈرز کی فہرست میں ان کی جگہ پر ٹکٹ ان کے دیور علی گوہر بلوچ کو دیا گیا ہے۔  
عائشہ رجب بلوچ کا کہنا ہے کہ پارٹی نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کرتے ہوئے علی گوہر بلوچ کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ اس پر حق رجب علی بلوچ کے اہل خانہ کا تھا۔  
اطلاعات کے مطابق عائشہ رجب بلوچ اپنے دیور کے خلاف مہم بھی چلا رہی ہیں۔  
ن لیگ کی جانب سے نوازے جانے والے ٹکٹ ہولڈرز کون ہیں؟  
پاکستان مسلم لیگ ن نے جہاں خود ہی اپنے کئی ایک اہم برج الٹ دیے ہیں وہیں کچھ ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیے ہیں جو بظاہر پارٹی ٹکٹ کے حقدار نہیں تھے، لیکن انھیں ان کی سیاسی طاقت، مال و دولت یا مقتدر حلقوں میں اثرو رسوخ کی وجہ سے نوازا گیا ہے۔  
رائے منصب علی ڈوگر  
2020 میں گوجرنوالہ جلسے میں نواز شریف کی تقریر کے بعد ان کے بیانیے کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کرنے والے سردار منصب ڈوگر کو مسلم لیگ ن نے ٹکٹ جاری کردیا ہے۔ 

2018 میں راجا ریاض پی ٹی آئی کے ٹکت پر منتخب ہو کر قومی اسمبلی پہنچے (فوٹو: اے پی پی)

پاکپتن سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے سردار منصب علی ڈوگر نے اس وقت پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے ملک دشمن بیانیے کا ساتھ نہیں دے سکتا، مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اپنی 25 سالہ رفاقت کو آج قربان کر رہا ہوں۔ ‘
تاہم ن لیگ نے انھیں سوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے کر ان کی اس غلطی کو نظرانداز کر دیا ہے۔ 
چوہدری نصیر سدھو  
گجرات کے حلقہ این اے 65 سے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ حاصل کرنے والے چوہدری نصیر سدھو مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر دو مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ چکے ہیں اور دونوں انتخابات میں وہ ناکام رہے ہیں۔  
وہ کچھ عرصہ قبل ہی مسلم لیگ کا حصہ بنے اور این اے 65 کے ٹکٹ کے حقدار قرار دیے گئے ہیں۔  
وہ پاک فضائیہ کے موجودہ سربراہ ایئرمارشل ظہیر بابر سدھو کے بھائی ہیں۔  
راجا ریاض احمد  
شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو پیپلزپارٹی کے راجا ریاض پہلے ان کی کابینہ کے رکن اور بعد ازاں اتحاد ختم ہونے کے بعد قائد حزب اختلاف بن گئے۔  
2018 میں راجا ریاض پی ٹی آئی کے ٹکت پر منتخب ہو کر قومی اسمبلی پہنچے، لیکن تحریک عدم اعتماد کے وقت اپنی پارٹی سے راہیں جدا کرکے سندھ ہاوس جا بیٹھے۔  
پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے استعفے دیے جانے کے بعد راجا ریاض پی ٹی آئی کے باقی ماندہ ارکان کے نمائندے کے طور پر قائد حزب اختلاف بن گئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب ایوان میں موجود قائد حزب اختلاف حکومتی اقدامات کی تعریفیں حکومت کے اپنے ارکان سے زیادہ کیا کرتا تھا۔  
اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے بعد راجا ریاض باضابطہ طور پر مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے۔ ن لیگ نے اپنی پارٹی سے وابستہ رانا محمد افضل کے پورے خاندان کی قیمت پر راجا ریاض کو ٹکٹ سے نوازا ہے۔  
ان کے علاوہ متعدد حلقوں میں ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں جن کے بارے میں یہ تاثر عام ہےکہ ماضی قریب میں وہ مسلم لیگ ن عملاً چھوڑ چکے تھے جبکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھی کئی پارٹی رہنماوں کی قربانی دی گئی ہے۔

شیئر: