گرفتاریوں پر کردستان ورکرز پارٹی کا فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔ فوٹو عرب نیوز
ترک پولیس نے گزشتہ ہفتے فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے شبہ میں 18 افراد کو زیر حراست لے لیا ہے۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی کے ساتھ جھڑپوں میں نو ترک فوجی جمعے کو جان کی بازی ہار گئے تھے جس کے بعد انقرہ نے شمالی عراق اور شمالی شام میں فضائی حملے اور کارروائیاں کیں۔
ترک حکام نے بتایا ہے کہ شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کی اعلیٰ سطحی رکن ہولیا مرسن کو ’بے اثر‘ کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ کردستان ورکرز پارٹی کو ترکیہ، امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے اس گروپ نے کرد نسل لوگوں کے حقوق کے لیے 1984 سے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔
دوسری جانب ترک افواج کی جانب سے شمالی عراق کے پہاڑوں میں مقیم کردستان ورکرز پارٹی کے عسکریت پسندوں پر باقاعدگی سے حملہ جاری رہتے ہیں۔
ترک وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشت گرد تنظیم سے منسلک ہونے، دہشت گردی کا پروپیگنڈہ کرنے اور عراق میں ترک کارروائیوں پر گمراہ کن خبریں پھیلانے کے الزام میں پولیس نے 18 افراد کو حراست میں لیا ہے۔
وزیر داخلہ نے اس ضمن میں مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ترکیہ میں 19 اور بیرون ملک 133 افراد کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے ہیں۔
ترکیہ کے سیکورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی (MIT) نے سرحد کے قریب شمالی عراق کے میتینہ ریجن میں ترک فوجیوں پر متعدد حملوں کی قیادت کرنے والی PKK تنظیم کی اعلیٰ سطحی رکن ہولیا مرسن کو ’غیر جانبدار’ کر دیا ہے۔
ترک وزارت دفاع کے مطابق کردستان ورکرز پارٹی کے متعدد عسکریت پسندوں کو جمعہ کے بعد سے کارروائیوں میں ’غیر جانبدار یا بے اثر’ کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ’غیر جانبدار یا بے اثر’ کے الفاظ اصطلاح کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں جس کے معنی عام طور پر ’ہلاک‘ کے ہوتے ہیں۔
دہشت گردی کے شبہ میں گرفتاریوں پر کردستان ورکرز پارٹی کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، PKK اپنے خلاف حملوں کی شاذ و نادر ہی تصدیق کرتی ہے۔
ترک حکام نے مزید بتایا ہے کہ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے اعزاز میں پیر کی صبح ملک کے تمام سکولوں میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔