سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے تمام امیدواران آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس وجہ سے ابتدائی طور پر تحریک انصاف جہاں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے، وہیں جیتنے والے تمام ازاد امیدوار پارٹی ڈسپلن سے بھی آزاد ہوں گے اور وہ اپنے پارلیمانی لیڈر کا حکم ماننے کے پابند نہیں ہوں گے۔
ایسے میں انتخابات کے فوری بعد جب آزاد امیدواروں کو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا کہا جائے گا تو قانونی ماہرین کے مطابق جیتنے والے یہ آزاد ارکان تحریک انصاف کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکیں گے اور ان پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہوگی۔
مزید پڑھیں
-
’بَلّے‘ کے بغیر مگر اب کیا ہوگا؟، اجمل جامی کا کالمNode ID: 827841
ماہرین کے مطابق چونکہ تحریک انصاف کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے اس لیے وہ اب پارلیمانی سیاست سے باہر ہو چکی ہے۔
سابق سیکریٹری سینٹ افتخار اللہ بابر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے پاس ایک آپشن ہوگا کہ وہ اپنی کسی اتحادی جماعت میں شامل ہو جائیں اور اسی سیاسی جماعت کی بنیاد پر اپنی مخصوص نشستیں بھی حاصل کر لیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے آزاد ارکان کی تعداد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے کافی کم ہوئی تو ایسی صورت میں ایک نئی منڈی لگے گی اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان آزاد ارکان کو خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔ تمام ارکان نہیں تو کم از کم ان میں سے کچھ لازمی ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں جو حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی، اور اس مقصد کے لیے انہیں وزارتیں اور دیگر عہدے پیش کیے جائیں گے۔ اس طرح تحریک انصاف کا شیرازہ بکھر جائے گا اور تمام محنت ضائع ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اگلے پانچ سال بھی سیاسی عدم استحکام برقرار رہے گا اور ملک میں جب سیاسی عدم استحکام ہوگا تو پھر معاشی عدم استحکام بھی اپنا وجود برقرار رکھے گا۔ جس کا نقصان پاکستان کے عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کمزور حکومت کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور دیگر مسائل سر اٹھاتے رہیں گے۔
پارلیمانی امور کے ماہر طاہر حنفی کہتے ہیں کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے ارکان کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ اس دفعہ یہ بھی امکان ہے کہ ماضی کے برعکس بڑی تعداد میں آزاد ارکان جیت کر پارلیمان میں پہنچیں۔ حکومت سازی کے عمل میں ان آزاد ارکان کا کردار بڑا اہم ہو جائے گا۔
