Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بَلّے‘ کے بغیر مگر اب کیا ہوگا؟، اجمل جامی کا کالم

لیگی رہنما نے کہا کہ ’مل بیٹھنا تو دور کی بات، کپتان تو ہمارا سیاسی وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
لاہور کی ایک یخ بستہ شام تھی۔ دار چینی کی چائے تھی اور ایک سینیئر لیگی رہنما کے ساتھ اتفاقی ملاقات تھی۔ موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال پر طویل مکالمہ برپا تھا۔ پاس ہی ایک غیر ملکی جریدے کے سینیئر نمائندے بھی کھڑے تھے جو انتہائی مشتاق آنکھوں سے موصوف کی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ان صاحب کا ماننا تھا کہ بلے کے نشان کی خلاصی پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔ رانا ثنا اللہ سے لے کر حنیف عباسی کے کیسز کا ذکر کرتے ہوئے یہ مختلف حوالہ جات دیتے ہوئے اصرار کررہے تھے کہ ’اگر ہم نے دائروں کے سفر میں ہی رہنا ہے تو یہی انجام کل کو ہمارا بھی دوبارہ ہوسکتا ہے، کیونکہ پرانی سکیم ہو یا موجودہ، یہ سکیمیں کوئی قابل عمل اور دیر پا حل ثابت نہیں ہوتیں۔‘
غیر ملکی جریدے سے منسلک صحافی گویا ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ غالباً پاور پالیٹکس اور انتقام کی سیاست کے شاخسانے ہیں جس سے پاکستان باہر ہی نہیں نکل پا رہا۔ گفتگو آگے بڑھی تو ہم نے استفسار کیا کہ آخر سینیئر سیاستدان ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے خود کیوں نہیں مل بیٹھتے، بےنظیر بھٹو اور نواز شریف بھی چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام پر کچھ وقت تک مل بیٹھے تھے؟  
لیگی رہنما نے شکوہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’کاش ایسا ہوجاتا۔ مل بیٹھنا تو دور کی بات، کپتان تو ہمارا سیاسی وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چارٹر آف اکانومی کی بات ہو یا ابھی چند ماہ پہلے انتخابات کی تاریخ پر چند رسمی نشستیں، ہر بار کپتان کی ضد آڑے آئی۔‘
جواباً ہم نے دلیل کے طور پرعرض کیا کہ حضور آپ کا شکوہ اپنی جگہ لیکن ان کا شکوہ بھی معنی خیز اور دلیل رکھتا ہے، آپ کب خلوص نیت کے ساتھ واقعی مسئلے کا حل چاہتے تھے؟ آپ نے کب ان کی مقبولیت کو تسلیم کیا؟ آپ نے کب کسی اور جگہ رجوع کرنے کے بجائے سیاستدانوں کے ساتھ ہی مل بیٹھنے کے عزم کا اظہار کیا؟
خیر! بات سے بات نکلے تو سیاسی موضوعات پھر کسی ایک نکتے پر کہاں رکتے ہیں، تاریخ ہی ایسی ہے کہ جہاں ہاتھ ڈالو کھلواڑ ہی کھلواڑ اور کباڑ ہی کباڑ ہے
محفل برخاست ہوئی تو سوچا اس پر لکھا جائے اور یہ بتلایا جائے کہ صاحب! سیاستدان آپس میں مل بیٹھنے کے بجائے کہیں اور رجوع کرنا ہی کیوں پسند کرتے ہیں۔

اب ہر حلقے میں بلے کے بجائے آزاد امیدوار کے پوسٹر پر عمران خان کی تصویر ہوگی (فوٹو: اے ایف پی)

وجہ وہی پاور پالیٹیکس اور انتقامی رویے ہیں۔ اس بنیادی وجہ کو چونکہ کہیں اور رجوع کرنے کی وجہ سے مہمیز پہنچتی ہے، لہذا سیاستدان انہی دائروں کے سفر میں رہتے ہوئے سیاست اور سماج کا بیڑہ غرق کرتے رہتے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ جہاں رجوع کیا جاتا ہے ان کی اہمیت بھی ہر دور میں پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ نہ یہ ماضی سے کچھ سیکھنے کو تیار ہوتے ہیں اور نہ وہ کیونکہ طاقت کا نشہ ہی ایسا ہے کہ سوچ سمجھ کو تالے لگ جاتے ہیں۔
نو مئی سے پہلے خان صاحب سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں، بارہا یہی عرض کیا کہ آپ ان سے بات کرنے کو تیار کیوں نہیں ہوتے؟ وہ ہر بار انہیں کرپٹ اور چور کہہ کر ان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری رہتے۔ بات کرنا چاہتے تھے لیکن کہیں اور۔ یقین جانیے یہی بنیادی غلطی تھی جو کپتان بھی سر زد کرتے رہے اور اب کوئی اور اسی روش پر ہے۔  
بَلّے کانشان چھن گیا۔ الیکشن کمیشن کا کردار اپنی جگہ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ۔ لیکن بہت کہا اور لکھا جا رہا ہے کہ اس بابت سزا شاید زیادہ ہے۔
’بَلّے‘ کے بغیر مگر اب کیا ہوگا؟  
اب ہر حلقے میں بلے کے بجائے آزاد امیدوار کے پوسٹر پر عمران خان کی تصویر ہوگی۔ موبائل فون کے دور میں بارہ کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 18 سے 45 سال کے آٹھ کروڑ نسبتاً نوجوان ووٹرز کے لیے کیا اپنی پسند کے آزاد امیدوار کے انتخابی نشان کو ڈھونڈنا مشکل ہوگا؟ جواب ہے نہیں۔ ہاں البتہ اگر ایک حلقے سے ایک سے زائد آزاد امیدواروں نے عمران خان کی تصویر کے ساتھ انتخابی مہم رچا لی تو صورتحال دیہات میں بالخصوص مشکل ہوسکتی ہے۔  

عمران خان کو زعم تھا کہ مقبولیت کی بنیاد پر مقتدرہ گھٹنے ٹیکتے ہوئے بات چیت کرنے پر مجبور ہوگی (فوٹو: اے ایف پی)

بلا چھن گیا تو لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر بھی تحریک انصاف نے درخواست واپس لے لی۔ کیونکہ جب پارٹی کے پاس انتخابی نشان ہی نہیں رہا تو لیول پلیئنگ فیلڈ اب ہر آزاد امیدوار کے لیے مختلف ہوگی۔ عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ بہتر ہے۔ لیکن اے کاش یہ رجوع مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کر کے کیا جاتا۔  
نو مئی کے سانحے پر کپتان سے عرض کیا تھا کہ کھل کر مذمت کرتے ہوئے اعلان کر دیں کہ اس میں چاہے کوئی میرا عزیز شریک ہے یا پارٹی ورکر، سب کو پکڑیں ہم تعاون کریں گے اور ایسے عناصرسے اظہار لاتعلقی کریں گے۔
یہ بیان اگر میڈیا کی زینت بنا ہوتا تو ناقد بھی معترف ہونے پر مجبور ہوتے۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوا۔ کیونکہ انہیں زعم تھا کہ مقبولیت کی بنیاد پر مقتدرہ گھٹنے ٹیکتے ہوئے بات چیت کرنے پر مجبور ہوگی۔
مقبولیت بجا لیکن صاحب! قبولیت بھی ہمارے ہاں انتہائی اہم ہوا کرتی ہے اور اس کے لیے سیانے کہتے ہیں کہ مقبولیت کی حفاظت مسلسل کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ کاش لعن طعن کے بجائے نوجوان بلاول ہی سے کچھ سیکھ لیا جاتا جو انتقام کی سیاست پر کھلی تنقید کرتے ہوئے آگے بڑھنے اور پرانے رویے ترک کرنے کی بات کر رہا ہے۔  
ایک چینی کہاوت ہے کہ ’اندھیرے پر لعنت بھیجنے سے بہتر ہے کہ موم بتی جلائیں۔‘ شاید یہی وجہ ہے کہ چینیوں نے لڑ مرنے اور کٹ مرنے کے بجائے موم بتی جلاتے جلاتے دنیا بھر میں اپنی ترقی سے روشنی بکھیر رکھی ہے اور ہم نے۔۔۔؟

شیئر: