لاہور کی ایک یخ بستہ شام تھی۔ دار چینی کی چائے تھی اور ایک سینیئر لیگی رہنما کے ساتھ اتفاقی ملاقات تھی۔ موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال پر طویل مکالمہ برپا تھا۔ پاس ہی ایک غیر ملکی جریدے کے سینیئر نمائندے بھی کھڑے تھے جو انتہائی مشتاق آنکھوں سے موصوف کی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ان صاحب کا ماننا تھا کہ بلے کے نشان کی خلاصی پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔ رانا ثنا اللہ سے لے کر حنیف عباسی کے کیسز کا ذکر کرتے ہوئے یہ مختلف حوالہ جات دیتے ہوئے اصرار کررہے تھے کہ ’اگر ہم نے دائروں کے سفر میں ہی رہنا ہے تو یہی انجام کل کو ہمارا بھی دوبارہ ہوسکتا ہے، کیونکہ پرانی سکیم ہو یا موجودہ، یہ سکیمیں کوئی قابل عمل اور دیر پا حل ثابت نہیں ہوتیں۔‘
مزید پڑھیں
-
نو مئی کے بعد عمران خان سے ملاقات کا احوال، اجمل جامی کا کالمNode ID: 815296
-
عمران یا نواز، گیم کہاں تک چلے گی؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 818881