لاہور کی ایک یخ بستہ شام تھی۔ دار چینی کی چائے تھی اور ایک سینیئر لیگی رہنما کے ساتھ اتفاقی ملاقات تھی۔ موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال پر طویل مکالمہ برپا تھا۔ پاس ہی ایک غیر ملکی جریدے کے سینیئر نمائندے بھی کھڑے تھے جو انتہائی مشتاق آنکھوں سے موصوف کی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ان صاحب کا ماننا تھا کہ بلے کے نشان کی خلاصی پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔ رانا ثنا اللہ سے لے کر حنیف عباسی کے کیسز کا ذکر کرتے ہوئے یہ مختلف حوالہ جات دیتے ہوئے اصرار کررہے تھے کہ ’اگر ہم نے دائروں کے سفر میں ہی رہنا ہے تو یہی انجام کل کو ہمارا بھی دوبارہ ہوسکتا ہے، کیونکہ پرانی سکیم ہو یا موجودہ، یہ سکیمیں کوئی قابل عمل اور دیر پا حل ثابت نہیں ہوتیں۔‘
مزید پڑھیں
-
نو مئی کے بعد عمران خان سے ملاقات کا احوال، اجمل جامی کا کالمNode ID: 815296
-
عمران یا نواز، گیم کہاں تک چلے گی؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 818881
غیر ملکی جریدے سے منسلک صحافی گویا ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ غالباً پاور پالیٹکس اور انتقام کی سیاست کے شاخسانے ہیں جس سے پاکستان باہر ہی نہیں نکل پا رہا۔ گفتگو آگے بڑھی تو ہم نے استفسار کیا کہ آخر سینیئر سیاستدان ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے خود کیوں نہیں مل بیٹھتے، بےنظیر بھٹو اور نواز شریف بھی چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام پر کچھ وقت تک مل بیٹھے تھے؟
لیگی رہنما نے شکوہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’کاش ایسا ہوجاتا۔ مل بیٹھنا تو دور کی بات، کپتان تو ہمارا سیاسی وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چارٹر آف اکانومی کی بات ہو یا ابھی چند ماہ پہلے انتخابات کی تاریخ پر چند رسمی نشستیں، ہر بار کپتان کی ضد آڑے آئی۔‘
جواباً ہم نے دلیل کے طور پرعرض کیا کہ حضور آپ کا شکوہ اپنی جگہ لیکن ان کا شکوہ بھی معنی خیز اور دلیل رکھتا ہے، آپ کب خلوص نیت کے ساتھ واقعی مسئلے کا حل چاہتے تھے؟ آپ نے کب ان کی مقبولیت کو تسلیم کیا؟ آپ نے کب کسی اور جگہ رجوع کرنے کے بجائے سیاستدانوں کے ساتھ ہی مل بیٹھنے کے عزم کا اظہار کیا؟
خیر! بات سے بات نکلے تو سیاسی موضوعات پھر کسی ایک نکتے پر کہاں رکتے ہیں، تاریخ ہی ایسی ہے کہ جہاں ہاتھ ڈالو کھلواڑ ہی کھلواڑ اور کباڑ ہی کباڑ ہے
محفل برخاست ہوئی تو سوچا اس پر لکھا جائے اور یہ بتلایا جائے کہ صاحب! سیاستدان آپس میں مل بیٹھنے کے بجائے کہیں اور رجوع کرنا ہی کیوں پسند کرتے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/January/36496/2024/34829xw-preview.jpg)
وجہ وہی پاور پالیٹیکس اور انتقامی رویے ہیں۔ اس بنیادی وجہ کو چونکہ کہیں اور رجوع کرنے کی وجہ سے مہمیز پہنچتی ہے، لہذا سیاستدان انہی دائروں کے سفر میں رہتے ہوئے سیاست اور سماج کا بیڑہ غرق کرتے رہتے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ جہاں رجوع کیا جاتا ہے ان کی اہمیت بھی ہر دور میں پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ نہ یہ ماضی سے کچھ سیکھنے کو تیار ہوتے ہیں اور نہ وہ کیونکہ طاقت کا نشہ ہی ایسا ہے کہ سوچ سمجھ کو تالے لگ جاتے ہیں۔
نو مئی سے پہلے خان صاحب سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں، بارہا یہی عرض کیا کہ آپ ان سے بات کرنے کو تیار کیوں نہیں ہوتے؟ وہ ہر بار انہیں کرپٹ اور چور کہہ کر ان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری رہتے۔ بات کرنا چاہتے تھے لیکن کہیں اور۔ یقین جانیے یہی بنیادی غلطی تھی جو کپتان بھی سر زد کرتے رہے اور اب کوئی اور اسی روش پر ہے۔
بَلّے کانشان چھن گیا۔ الیکشن کمیشن کا کردار اپنی جگہ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ۔ لیکن بہت کہا اور لکھا جا رہا ہے کہ اس بابت سزا شاید زیادہ ہے۔
’بَلّے‘ کے بغیر مگر اب کیا ہوگا؟
اب ہر حلقے میں بلے کے بجائے آزاد امیدوار کے پوسٹر پر عمران خان کی تصویر ہوگی۔ موبائل فون کے دور میں بارہ کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 18 سے 45 سال کے آٹھ کروڑ نسبتاً نوجوان ووٹرز کے لیے کیا اپنی پسند کے آزاد امیدوار کے انتخابی نشان کو ڈھونڈنا مشکل ہوگا؟ جواب ہے نہیں۔ ہاں البتہ اگر ایک حلقے سے ایک سے زائد آزاد امیدواروں نے عمران خان کی تصویر کے ساتھ انتخابی مہم رچا لی تو صورتحال دیہات میں بالخصوص مشکل ہوسکتی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/January/36496/2024/33px6m9-preview_1.jpg)