قومیں بتدریج اپنا معیارزندگی بہتر بناتی ہیں ۔اپنی شروعاتی زندگی سے ہی قومیں اصول وضوابط کو حرف آخرنہیں بنا لیتیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں اور ترامیم کرتی رہتی ہیں ۔انقلاب بھی ایسے ہی نہیںآجاتے بلکہ ان کے پیچھے کئی نسلوں کی محنتیں،ریاضتیں اور قربانیاں ہوتی ہیں۔ہرروز ہونے والی نت نئی ایجادات نے ہمارا طرززندگی کو بدل کررکھ دیا ہے ۔پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور اب سوشل میڈیا نے ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو یکسر بدل دیا ہے ۔مارکیٹنگ سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک سوشل میڈیا نہ صرف استعمال ہورہا ہے بلکہ ہرروز اس کی افادیت بڑھ رہی ہے ۔پاکستانی قوم بلاشبہ جذباتی ہے ، اپنا ہرمعاملہ جذبات میں رہ کر دیکھا جاتا ہے اور بعض اوقات تو اس پر ردعمل دے کر بعد میں اس مسئلہ کی باریکیوں پر نظر ماری جاتی ہے ۔پچھلے دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک ٹویٹ کا شور ہوا تو بعد میں عمران خان کی سابقہ بیوی جمائمہ کی ٹویٹ پر بھی سیر حاصل بحث سننے اور دیکھنے کو ملی ۔مریم نواز ودیگر سیاسی خانوادوں کی اکثریت سوشل میڈیا کو استعمال کررہی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا جنگی ہتھیار بن چکا ہے جس کے بغیر جیتنا ممکن نہیں رہا ۔ دہشت گردی کا شکا ر ممالک اور قومیں بھی سوشل میڈیا کا استعمال بڑے احسن طریقے سے کررہی ہیں ۔فلسطینی قوم سوشل میڈیا پر ایک بہترین انداز سے اپنا مقدمہ پیش کررہی ہے تو کشمیری، ہندوستانی چہرہ پوری دنیا کے سامنے ننگاکررہے ہیں ۔ سوشل میڈیا کا بہترین استعمال ہی ہے جو ہندوستان کو باربار مجبور کررہا ہے کہ وہ کشمیر وادی میں انٹرنیٹ کی سہولیات کو بند کردے۔پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد فیس بک استعمال کررہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ پاکستانی قوم سوشل میڈیا کواحسن طریقے سے استعمال کرنا سیکھ رہی ہے ۔الحاد وسیکولر کے خلاف پہلے آواز اسی سوشل میڈیا پر ہی بلند ہوئی تھی جس کے بعد بتدریج یہ حکمران بالا تک پہنچی ۔
رمضان المبارک کے آتے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو پرلگ جاتے ہیں ۔ ایک سوروپے والی چیز 150سے لے کر 200 تک چلی جاتی ہے ۔غریب بے چارہ رمضان میں سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد بھی افطار کے وقت روکھی سوکھی کھاکر گزارا کرتا ہے۔ رمضان میں نبی کریمدونوں ہاتھوں سے خیرات تقسیم کیا کرتے تھے لیکن آپ کے نام لیوا منافع خوری کے چکر میں رمضان المبارک کے محترم ومکرم ماہ کو چن لیتے ہیں ۔اس بار بھی رمضان المبارک میں ایسا ہی ہوا۔آم جو رمضان سے قبل 120روپے کلو تھا، رمضان کے شروع کے دنوں میں یکدم 200روپے کلو پر چلا گیا ۔باقی پھلوں کی قیمتوں کو بھی پر لگے اورمقررہ قیمت سے نصف سے بھی اوپر قیمت پر فروخت ہوئے۔ فیس بک پر ایک سوشل ایکٹویسٹ کی طرف سے اپیل پر جمعہ ،ہفتہ اور اتوار کے روز پھلوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بارکوئی غیر سیاسی بائیکاٹ ہوا۔سوشل میڈیا سے یہ بائیکاٹ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاسے ہوتا ہوا عوام الناس تک پہنچااور پھرعملی بائیکاٹ کی شکل میں پھل فروشوںاورناجائز منافع خوروں کے سامنے آکھڑا ہوا۔ یہ بائیکاٹ کہاںتک کامیاب ہوایہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ایک دن میں20 ہزار تک کا مال فروخت کرنے والے صرف 8 ہزار تک مال فروخت کرپائے ہیں ۔یورپی ممالک میں عوام الناس اپنے حقوق کی خاطر یکجاہوکر آوازاٹھاتے ہیں ۔کسی چیز کی زائد قیمت پر وہاں بائیکاٹ کرنے کی روایت بھی موجود ہے لیکن یہ سب پاکستان میں پہلی بارہوا ہے اور صارف کو بلاشبہ اپنی طاقت کا احساس بھی ہو اہے ۔2جون سے 4جون تک رہنے والے بائیکاٹ میں پھلوں کی قیمت کم ہوئی اور پھل فروشوں کے ساتھ آڑھتی ودیگر کاروباری حضرات کو نقصان بھی ہوا لیکن یہ سب ایک ابتدائی چیز ہے ۔اس بائیکاٹ سے خواہ کوئی فائد ہ حاصل ہویانہ ہو، یہ میرے لیے اہمیت کی بات نہیں ۔اہمیت اس بات کی ہے کہ پاکستانی عوام سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کررہی ہے ۔