Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیرت ،محبت سے فزوں تر ہے

محمد عتیق الرحمن ۔ فیصل آباد
 
موجودہ دور میں رسول اکرم کی شان عالی میں گستاخی کرنیوالے ایک نئے زاویے سے اٹھے ہیں ۔الحاد وسیکولرازم کے افکار کی آڑ میں مقدس ہستیوں پر دشنام طرازی کی جارہی ہے ۔سوشل میڈیا پر مختلف پیجز وگروپس بنا کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جارہاہے۔ مسلمانوں کے دل چھلنی چھلنی کیے جارہے ہیں ۔موچی ،بھینسا وروشنی جیسے پیجز اردوزبان میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائے جارہے ہیں ۔پاکستان میںجہاںلسانیت ،صوبائیت اورقومیت پر تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں، وہیں قوم کے جذبات سے کھیلنے اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی غرض سے فیس بک پر گستاخانہ مواد کو روزانہ کی بنیادپراپ لوڈ کیا جارہاہے۔ گستاخانہ تحریریں لکھنے والوں کو بلاگرز اور سماجی شخصیات کے طور پر پیش کیا جارہاہے ۔سوشل ،پرنٹ والیکٹرونک میڈیا پر ان گستاخوں کی حمایت میں بھی کچھ آوازیں بلند ہوتی نظر آتی ہیں جہاں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو ان شاتمان کے ساتھ ہمدردی کرتے نظر آتے ہیں ، وہیں پاکستانیوں کی اکثریت شدید غم وغصے کی کیفیت میں مبتلا ہے اورعلمائے کرام میں سے بھی کچھ بڑے اور معتبرنام اس سلسلے میں کام کررہے ہیں مگر حیرت ہے کہ حکومت وقت جو عدالتی حکم کے باوجود بھی سوشل سائٹس پر اس طرح کے پیجز کو بندکرنے اور ان کے ذمہ داران کو پکڑنے کی کوشش نہیں کررہی ۔
ہائی کورٹ میں گستاخانہ مواد کیس کی سماعت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تکنیکی امور میں نہیں پڑنا، اس حساس معاملے میں پورا سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو کروں گا، بھینسا ، گینڈا ، کتے یا سور سب بلاک ہونے چاہئیں، اگر بلاک نہیں کرسکتے تو پی ٹی اے کو بند کردیں۔اس موقع پرعدالت نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ عدالت میں پیش ہو کر بتائیں کہ حکومت نے اس اہم ایشو پر اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیںلیکن وزیر داخلہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے حاضر نہ ہوئے ۔ریمارکس کے دوران جسٹس صدیقی محبت ِ مصطفی میں آبدیدہ ہوگئے اور اہل پاکستان کو بتادیا کہ ابھی عدلیہ میں عشق مصطفی رکھنے والے افراد موجود ہیں ۔جسٹس صدیقی نے مزید کہا کہ یہ معاملہ بیورکریسی پر نہیں چھوڑیں گے ،معاملے میں ملوث عناصر اور جو تماشہ دیکھتے رہے، دونوں کیخلاف کاروائی ہوگی۔ اگر گستاخانہ مواد نشر کرنیوالوں کیخلاف کارروائی نہ ہوئی تو ملک میں امن و امان کا سنگین مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنایاگیا تھا جس کی بنیاد ’’لاالہ الا اللہ‘‘ہے۔اس کی بنیادوں میں کلمہ گو بزرگوں،بھائیوں ،بیٹوں ، بہنوں، مائوں اور بیٹیوں کا خون شامل ہے ۔مسلمان چاہے اپنے علم وعمل میں کیسا ہی کوتاہ نظر ہو لیکن ایک ہستی ایسی ہے جس کیلئے وہ جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے ۔ وہ محمد عربی کی ہستیٔ مبارک ہے ۔ہمارے پاس ایک ہی تو ہستی ہے، اگر اس کی محبت کو بھی اس طرح سے ہمارے دلوں سے نکال دیا گیااور ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمان بن کر رہتے رہے تو پھر ہمارا ایمان ایمان نہیں ہوگا۔ اسلام دشمن قوتیں ہم سے ہمارے نبی مکرم کی محبت چھین لینا چاہتی ہیں ۔حکمران طبقے کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان اپنے ہر کام میں غافل ہوسکتا ہے لیکن ناموس رسالت اور حب نبوی ان کو اپنی جان ،مال ،اپنے وطن ،اپنی آل اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔محبت نبوی ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔حکومت وقت اس حساس مسئلے کو سمجھتے ہوئے بغیر کسی روک ٹوک اور بیرونی دبائو کے جلد ازجلد کارروائی کرے اور گستاخان کو کیفرکردار تک پہنچائیں ۔علمائے کرام سے میں ایک ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتاہوں کہ جیسے آپ نے تحریک ختم نبوت چلائی تھی، ویسے ہی ناموس رسالت کیلئے نکل کھڑے ہوں ۔آج کا نوجوان آپ کی طرف دیکھ رہاہے ۔
 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں