Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں ’شکاری چیتے‘ کی نسل کیوں نایاب ہورہی ہے؟

مملکت کے ایک غار سے 17 شکاری چیتوں کے ڈھانچے ملے ہیں۔ (فوٹو: سبق)
سعودی عرب کےشمالی حدود ریجن میں امان ماحولیاتی انجمن کے سربراہ ناصر المجلاد نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب میں  شکاری چیتے کی نسل نایاب ہوتی جارہی ہے۔‘
انہوں نے کہا پچاس سال قبل اس نسل کے  چیتے کثیر تعداد میں  ہوا کرتے تھے لیکن اب نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں، اس کے کئی اسباب ہیں۔ 
سبق ویب کے مطابق ناصر المجلاد نے بتایا کہ ’شکاری چیتے قلیل تعداد میں  رہ گے۔ مملکت کے ایک غار سے 17 شکاری چیتوں کے ڈھانچے ملے ہیں۔  شکاری چیتا تیزی سے دوڑتا ہے دیگر جانور دوڑ میں اس کا مقابلہ  نہیں کرسکتے۔ اس کی جسمانی خصوصیات ریس میں شرکت کرنے والے  کتے سے ملتی جلتی ہیں۔‘
’اس کا چہرہ چھوٹا اور چپٹا ہوتا ہے ٹانگیں لمبی ہوتی ہی جو اسے اپنے شکار پر قابو  پانے میں مدد گار بنتی ہیں۔ اس کے  پنجے صاف نظر آتے ہیں جسے چھپایا نہیں جاسکتا۔جسم کے  سائز کے لحاظ سے اس کا سر چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں امیج اسٹیبلائزیشن سسٹم ہوتا ہے جس کی بدولت وہ تیز رفتاری سے دوڑتے ہوئے اپنے شکار پر توجہ مرکوز کرپاتا ہے۔ اس کی ناک کشادہ نتھنے والی  بڑے سائز کی ہوتی ہے۔‘ 
شکاری چیتا عام عرب چیتے سے کئی حوالے سے مختلف ہوتا ہے۔ عربوں میں اسے بعض الفھد الصیاد دیگر الاکشم کہتے ہیں۔ مادہ کو کشما کہا جاتا ہے اس کی جمع کشم ہوتی ہے اس کے ناموں میں قضاعہ، ابوحیان، الوثاب، الکنغم، الھوس اور الھؤبر بھی ہیں۔ 
مادہ چیتے کے ناموں میں القفذہ، الکشما، الفھیدۃ اورالعؤیر قابل ذکر ہیں۔ 
ناصر المجلاد نے بتایا’ شمالی حدود ریجن الفھد الصیاد کا پرانا مسکن ہے۔ یہاں چٹانوں پر نقوش میں اس کی شکلیں ملتی ہیں۔‘
’غیر ملکی سیاحوں نے اپنے سفرناموں اس کا تذکرہ  کیا ہے۔ فن لینڈ کے جورج اوگسٹ ویلن نے تحریر کیا کہ وہ 20 ستمبر 1845 کو حائل آیا تھا وہاں اس نے الفھد الصیاد دیکھا تھا۔‘
فن لینڈ کا یہ سیاح 19 ویں صدی عیسوی میں شمالی جزیرہ عرب دریافت کرنے والے پہلے یورپی سیاحوں میں شمار ہوتا ہے۔ 

شیئر: