اسرائیلی حراست میں تشدد کیا گیا، انسانی حقوق کارکن کا دعویٰ
اسرائیلی حراست میں تشدد کیا گیا، انسانی حقوق کارکن کا دعویٰ
پیر 22 جنوری 2024 20:51
حراست کے دوران مختلف قسم کی سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فائل فوٹو اے ایف پی
غزہ میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن ایمن لباد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں حراست کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
عرب نیوز کے مطابق برطانوی اخبار گارجین نے رپورٹ کیا تھا کہ فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے کارکن ایمن نے بتایا کہ انہیں 7 دسمبر کو حراست میں لیا گیا۔
اس وقت اسرائیلی فورسز نے ان کے پڑوس کو خالی کرنے کا حکم دیا اور وہاں موجود مردوں کو عوام کے سامنے قمیضیں اتارنے پر مجبور کیا گیا۔
واقعے کی تصاویر گردش کرنے پر امریکہ نے اسے ’انتہائی نامناسب‘ قرار دیا اور ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی نے قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھنے پر زور دیا۔
ایمن لباد نے ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے اپنی اہل خانہ کو نہیں دیکھا، انہوں نے بتایا ہے کہ حراست کے دوران مختلف قسم کی سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید برآں اسرائیل کی جانب سے حال ہی میں حراست میں لیے گئے بہت سے فلسطینیوں کی بھی یہ حالت زار ہے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حراست میں کم از کم چھ افراد کی موت ہو چکی ہے، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک قیدی کے جسم پر شدید زخم تھے۔
حال ہی میں حراست میں لیے گئے فلسطینیوں کی حالت خراب ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی
روئٹرز اور 972+ میگزین کی تحقیقات میں الزام لگایا گیا ہے کہ غزہ کے سیکڑوں قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے، جھلسانے، ضروریات زندگی سے محروم رکھنے اور تناؤ کا نشانہ بنایا گیا۔
ایمن لباد نے دعویٰ کیا ہے کہ حراست کے دوران اسے مسلسل بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے علاوہ مختلف مقامات پر منتقل کیا گیا۔
گھٹنوں کے بل کئی کئی گھنٹے رہنے پر مجبور کیا گیا، تمسخرانہ انداز میں پوچھ گچھ کے علاوہ شدید سردی میں جسمانی اذیب کا نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوجیوں نے نامناسب انداز میں ہماری تصویریں کھینچیں اور حراست میں لیے گئے کچھ لڑکوں کو ناچنے پر مجبور کیا۔
غزہ کے سیکڑوں قیدیوں کو بجلی کے جھٹکوں کا نشانہ بنایا گیا۔ فائل فوٹو اے ایف پی
ایمن لباد نے گارجین اخبار کو بتایا ہے کہ اس سے قبل ہم گلی میں بیٹھے تھے کہ اسرائیلی فورسز نے ہمارے سامنے مقید، مہدی، کہلوٹ اور سورور خاندانوں کے گھروں کو آگ لگا دی۔
ایمن لباد کو دو گھنٹے بعد غزہ کے شمال میں زیکیم کبوتز کے قریب ایک ساحل پر لے جایا گیا پھر ’ہتھکڑیاں اور آنکھوں پر پٹی‘ باندھ کر اوفاکیم کے فوجی کیمپ میں لے جایا گیا۔
غزہ کے 500 سے 700 رہائشیوں کو خاردار تاروں کی پناہ گاہوں میں حراست میں رکھا گیا جہاں اسرائیلی فوجی دو بلند چوکیوں سے نگرانی کر رہے تھے۔
ریڈ کراس نے قیدیوں سےانسانی سلوک روا رکھنے پر زور دیا ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی
زیر حراست مردوں کو صبح 5 بجے سے آدھی رات تک آنکھوں پر پٹی باندھ کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا۔
ذرا سی پوزیشن تبدیل کرنے یا آنکھوں کی پٹی ہٹانے کی کوشش کے نتیجے میں تقریباً تین گھنٹے تک سر کے اوپر ہاتھ رکھ کر کھڑے رہنا اور زدوکوب ہونا شامل تھا۔
انسانی حقوق کے اہلکار نے مزید بتایا کہ دوران حراست ایک تفتیش کار نے میری ملازمت کا مذاق اڑایا اور کہا ’جیل میں آپ کو آپ کے حقوق اچھی طرح سکھاؤں گا۔‘