اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا غزہ تنازع کی تحقیقات کا حکم
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا غزہ تنازع کی تحقیقات کا حکم
جمعرات 27 مئی 2021 21:16
اسرائیل کے فضائی حملوں اور آرٹلری کی فائرنگ سے غزہ میں 254 فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے حالیہ غزہ تشدد اور فلسطینی علاقوں اور اسرائیل کے اندر انسانی حقوق کی ’منظم ‘ پامالیوں کی جاری تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تحقیقات کے لیے پیش کردہ قرارداد کے حق میں کونسل کے 47 میں سے 24 ارکان نے ووٹ دیے۔
قرارداد کی منظوری سے مشرق وسطیٰ کے تنازع میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اس کے اسباب کے حوالے سے غیر معمولی تحقیقات کا آغاز ہو جائےگا۔
قرارداد کا متن پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے پیش کیا جس پر کونسل کے ایک روزہ خصوصی اجلاس کے دوران بحث کی گئی۔ بحث کا فوکس اس مہینے کے دوران فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں رہی۔
قرار داد پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے سربراہ مشیل بیچلیٹ نے حالیہ جھڑپوں کے دوران غزہ میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے 'جنگی جرائم' کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔
مشیل بیچلیٹ کا کہنا تھا کہ انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جن کے مطابق اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننے والی عمارات کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو۔
انہوں نے رواں ماہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے تشدد پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم انہوں نے حماس کی جانب سے اندھا دھن راکٹ حملوں کو بھی بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔
اپنی تقریر میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ ’گو کہ اسرائیل نے اپنے حملوں کے دوران احتیاطی تدابیر اپنائی ہیں جن میں حملوں سے قبل وارننگ دینا شامل ہے لیکن گنجان آباد علاقوں میں ہونے والے ان حملوں میں بڑی تعداد میں شہری ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں جبکہ شہری انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔'
ان کے مطابق یہ حملے شہری آبادی اور شہری املاک پر اپنے اثر کے اعتبار سے بلا امتیاز اور غیر متناسب دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا جا سکتا ہے۔‘
گزشتہ جمعے کو ہونے والی جنگ بندی سے قبل اسرائیل کے فضائی اور آرٹلری کی فائرنگ سے غزہ میں 254 فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے جن میں 66 بچے بھی شامل تھے۔ غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق ان حملوں میں 1900 افراد زخمی بھی ہوئے۔
غزہ سے حماس کی جانب سے راکٹ حملوں میں 12 اسرائیلی بھی ہلاک ہوگئے جن میں ایک بچہ بھی چامل تھا۔
جمعرات کو منظور کی جانے والی قرارداد کے ذریعے نہ صرف حالیہ تنازع سے جڑے پامالیوں کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے بلکہ منظم پامالیوں کی بھی تحقیقات ہوگی جن کی وجہ سے تشدد کا ایک سائیکل شروع ہو جاتا ہے۔
کمیشن نے ایک ’جاری آزادانہ عالمی کمیشن آف انکوائری‘ مضبوضہ فلسطینی علاقوں بشمول یروشلم اور اسرائیل میں قائم کرنے پر اتفاق کیا۔
قرار داد کے متن کے مطابق انوسٹی گیٹرز بار بار رونما ہونے والے تشدد اور عدم استحکام کے اسباب کی تحقیقات کریں گے جن میں گروہی شناخت کی بنیاد پر روا رکھے جانے والے منظم امتیاز اور ظلم بھی شامل ہوگا۔
تحقیقات کرنے والے حقائق کو سامنے لانے اور قانونی کاروائی کے لیے ثبوت اکھٹا کرنے کی کوشش کریں گے اور اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ ان پامالیوں میں ملوث افراد کی نشاندہی ہو تاکہ ان کو کٹہرے میں لایا جائیں۔
قرارداد میں ممالک پر زور دیا گیا کہ ’رسائی کی صورت میں اسلحے کی منتقلی سے گریز کریں کیونکہ یہ اسلحہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔‘
قرارداد پر ووٹنگ سے قبل اسرائیل کے جنیوا میں (اقوام متحدہ) سفیر میراؤ ایلن شہر نے کونسل کے سیشن اور قرارداد کے متن پر شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سیشن اور قراردار کونسل کی اسرائیل کے ساتھ تعصب کی ایک اور مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’قرارداد کا حقیقت اور انسانی حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘
انہوں نے ممبر ممالک پر زور دیا کہ وہ اس قرارداد کی حمایت نہ کریں جو کہ بقول ان کے حماس جیسی ’نسل پرست، نسل کشی کرنے والی اور دہشت گرد‘ تنظیم کے لیے انعام ہوگا اور اس کو شہہ دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل نے سویلین کو بچانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا لیکن حماس کی رہائشی عمارتوں، میٹرنٹی ہومز اور مساجد کے نیچے چھپنے کی حکمت عملی کی وجہ سے معصوم جانوں کا ضیاع ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ حماس کی مذمت نہیں کرتے تو آپ فلسطینیوں کے حامی نہیں ہوسکتے۔
دریں اثنا فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اسرائیل پر ایک نسل پرستانہ نظام قائم کرنے کا الزام لگایا۔
’حق خود اختیاری اور قبضے کے خلاف مزاحمت کا حق بطور فلسطینی ہمیں حاصل ہے۔‘
بحث کے دوران کئی ممالک نے غزہ کے حالیہ تشدد کی مذمت کی اور زور دیا کہ غزہ تک فوری امداد پہنچایا جائے۔
کئی ممالک نے 14 سالوں سے زائد عرصے پر محیط غزہ کی ناکہ بندی اور فلسطینیوں کو گھروں سے بے دخلی اور ان کے گھروں کی مسماری کو مستقل ٹینشن اور تشدد کی وجہ قرار دے دیا۔