Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پیپلزپارٹی نہ ن لیگ، کسی جماعت کا منشور حقائق کا عکاس نہیں‘ 

ماہرین سیاسی رہنماؤں کے وعدوں پر عملدرآمد کے یقینی ہونے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔  (فوٹو: اے ایف پی)
 پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے سال 2024کے انتخابات کے لیے اپنے منشور کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن ملک کا ایک بڑا طبقہ ان کے کیے گیے وعدوں کو شاکی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ 
نہ صرف یہ کہ عوام کی طرف سے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے ان وعدوں کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی بلکہ ماہرین ان وعدوں پر عملدرآمد کے یقینی ہونے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ 
پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کے سابق نگران وزیراعلٰی اور سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق دونوں بڑی جماعتوں کے سیاسی منشور محض خوابوں اور خواہشات کا مجموعہ ہیں اور ان میں سے کسی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
 وہ کہتے ہیں کہ ’دونوں بڑی جماعتوں میں سے کسی نے نہیں بتایا کہ معیشت کی اس خراب صورتحال میں وہ اپنے کیے گیے وعدوں پر عملدرآمد کیسے کریں گے۔‘ 
 ان کا کہنا ہے کہ ’عام آدمی کو کسی جماعت کے منشور کا پتہ ہی نہیں ہوتا، سیاسی جماعتیں اس کو محض ایک رواج اور فیشن کے طور پر جاری کرتی ہیں۔ ان انتخابات کے لیے جاری کیے گیے کسی بھی منشور کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘ 
 ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ’یہ محض ایک کاغذی کارروائی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں ان وعدوں کے بارے میں اتنی سنجیدہ ہیں تو بتائیں کہ ان پر عمل کے لیے پیسہ کہاں سے لائیں گے؟‘ 
 تجزیہ کار اور ڈان ٹیلیویژن کی کرنٹ افئیرز میزبان نادیہ نقی کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دونوں کے منشور میں اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون سا نظام لائیں گے جس سے ان کے وعدوں پر عمل ممکن ہو گا۔ 
 ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ دونوں جماعتوں کے منشور پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان میں پانچ سال کا معاشی منصوبہ اور نظام موجود نہیں ہے جس پر چل کر یہ اپنے وعدوں کی تکمیل کریں گے۔‘ 

 نادیہ نقی سمجھتی ہیں کہ پاکستان ابھی منشور کی بنیاد پر انتخابات کی مہم چلانے کے عمل سے بہت پیچھے ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 نادیہ نقی کے مطابق ’نواز لیگ کہتی ہے کہ ایک کروڑ سے زائد نوکریاں دیں گے جب کہ بلاول تیس لاکھ گھروں کا وعدہ کر رہے ہیں، لیکن وہ دونوں یہ نہیں بتاتے کہ یہ کیسے کریں گے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ  ’اگر ایک کروڑ نوکریوں کی بات ہے تو عمران خان نے بھی یہ وعدہ کیا تھا، نواز لیگ سے اس وعدے کی حقیقت پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ مواقع پیدا کریں گے، لیکن کیسے کریں گے؟ اسی طرح بلاول سے تیس لاکھ گھروں کا پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ ایک کمرے کا گھر بنا کر دیں گے۔ اب بغیر کچن اور باتھ روم کے تو کوئی گھر نہیں ہوتا۔‘ 
 نادیہ نقی کے مطابق نواز لیگ کا تنخواہیں دگنی کرنے کا دعوٰی بھی ناقابل عمل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے پاس اس کے لیے سرمائے کے انتظام کا کوئی منصوبہ نہیں ہے یا ابھی تک انہوں نے بتایا نہیں ہے۔  
 انہوں نے کہا کہ ’لیکن اگر اس پر یقین بھی کر لیا جائے تو وہ صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھا سکتے ہیں۔ اس ملک میں لاکھوں پرائیویٹ ملازمین کے حالات زندگی بہتر بنانے کا کیا فارمولہ ہے ان کے پاس اور ان کی تنخواہوں میں وہ کیسے اضافہ کریں گے؟‘ 
 نادیہ نقی نے کہا کہ دونوں جماعتوں میں سے کسی کے منشور میں پاکستان کے بڑے مسائل جیسے ٹیکس نیٹ میں اضافہ، تاجروں اور زراعت پر ٹیکس لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، پی آئی اے اور سٹیل ملز کی بہتری یا نجکاری کا کوئی زکر نہیں ہے اور معیشت کی ترقی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ’یہ صرف اقتدار کے لیے کیے گیے وعدوں سے بھرا ایک کاغذ ہے۔‘ 
 نادیہ نقی سمجھتی ہیں کہ پاکستان ابھی منشور کی بنیاد پر انتخابات کی مہم چلانے کے عمل سے بہت پیچھے ہے۔ 
 

شیئر: