Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کے وہ چار حلقے جہاں مسلم لیگ ن کی گرفت کمزور ہوئی

لاہور کے 14 میں سے 10 حلقے ایسے ہیں جہاں گذشتہ تین انتخابات میں مسلم لیگ ن ہمیشہ فاتح رہی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ الیکشن کے پہلے مرحلے میں امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی جمع ہونے کے بعد انہیں انتخابی نشان بھی الاٹ ہو چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا آغاز بھی ہو چکا ہے اور سکروٹنی کے عمل سے گزرنے والے امیدوار اب اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار فائنل کر لیے ہیں۔ تحریک انصاف ’بلے‘ کے بغیر میدان میں اُتر رہی ہے۔ انتخابات کا سب سے بڑا محاذ صوبہ پنجاب ہے۔ 
سیاسی مبصرین کے مطابق جو پنجاب جیت گیا وہی حکومت بنائے گا۔ ایسے میں کانٹے کے مقابلے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں متوقع ہیں۔
تحریک انصاف نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران لاہور میں اپنی جگہ بنائی ہے جو ایک حقیقت کا رُوپ دھار چکی ہے جبکہ حالیہ عرصے کے دوران لاہور کو اپنا قلعہ سمجھنے والی مسلم لیگ ن کی گرفت چند حلقوں میں کمزور ہوئی ہے۔
گذشتہ انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو لاہور کے چار حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم لیگ ن کے ووٹ بتدریج کم ہوئے ہیں اور اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ان حلقوں میں اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔
یہ چار حلقے کون سے ہیں؟
نئی مردم شماری کے بعد لاہور کی حلقہ بندیاں کافی حد تک تبدیل ہوئی ہیں اور ان کے نمبر بھی اب بدل چکے ہیں، تاہم بنیادی علاقے اور ان میں سیاسی حریف نہیں بدلے۔ 
لاہور میں گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کے علاقوں پر مشتمل حلقہ جس پر ایک طرح سے تحریک انصاف کی چھاپ لگ چکی ہے وہ ہے این اے 128۔
یہ وہ پہلا حلقہ ہے جس میں 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی گرفت کمزور ہوئی تھی۔ تحریکِ انصاف کے رہنما شفقت محمود یہاں سے دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کے شفقت محمود نے این اے 127 لاہور سے 2013 اور 2018 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)

اب کی بار یہاں سے بیرسٹر سلمان اکرم راجہ آزاد حیثیت سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار ہوں گے جبکہ اُن کے مقابلے میں ن لیگ نے اپنا امیدوار کھڑا ہی نہیں کیا اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے استحکام پاکستان پارٹی کے عون چوہدری کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسرے نمبر پر حلقہ این اے 129 ہے جہاں سے 2018 کے عام انتخابات میں حماد اظہر نے کامیابی حاصل کی تھی۔ سمن آباد، چوک یتیم خانہ سے لے کر سبزہ زار اور کچا فیروزپور روڈ تک پھیلے ہوئے اس حلقے میں بھی تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔
 تاہم اس بار حماد اظہر انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے اور اُن کے والد میاں محمد اظہر اس حلقے سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں جبکہ ن لیگ نے اس حلقے سے حافظ نعمان کو ٹکٹ دیا ہے۔
حلقہ این اے 126 لاہور کا وہ حلقہ ہے جہاں سے گذشتہ انتخابات میں تحریک انصاف نے سب سے زیادہ مارجن سے فتح حاصل کی تھی۔

مسلم لیگ ن ایک سیٹ پر استحکام پاکستان پارٹی کے عون چودھری کی حمایت کر رہی ہے (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ایکس اکاؤنٹ)

پی ٹی آئی کے کرامت کھوکھر نے تقریباً 65 ہزار ووٹ لیے تھے جبکہ اُن کے مقابلے میں سیف الملوک کھوکھر جو ن لیگ کے امیدوار تھے، کو 55 ہزار ووٹ ملے تھے۔ یہ حلقہ مرغزار کالونی، ٹھوکر نیاز بیگ، شاہ پور، واپڈا ٹاؤن، ویلنشیا اور ستوکتلہ کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 
آخری حلقہ این اے 122 ہے جو ڈیفنس، والٹن اور کنٹونمنٹ کے علاقوں پر مشتمل ہے، یہاں سے گذشتہ عام انتخابات میں بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو شکست دی تھی۔ 
تاہم جب عمران خان نے یہ سیٹ چھوڑی تو ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق یہاں سے جیت گئے۔
لاہور کے 14 میں سے 10 حلقے ایسے ہیں جہاں گذشتہ تین انتخابات کے دوران مسلم لیگ ن ہمیشہ فاتح رہی ہے۔

شیئر: