Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے انتخابات فروری کے آخر میں متوقع

سینٹر کے اراکین میں مسلمانوں کے ساتھ  متعدد مذاہب کے لوگ بھی ہیں( فوٹو: فیس بک)
انڈیا اسلامک کلچرل سینٹرمیں ضابطہ اخلاق ( کوڈ آف کنڈکٹ) کے نفاذ کے بعد فروری کے آخری ہفتے میں ووٹنگ کا امکان ہے۔
یاد رہے اسلامک کلچرل سینٹر انڈین مسلمانوں کا ایک موقر ادارہ ہے جو دہلی کے پو ش علاقے لودھی روڈ پر واقع ہے۔
سینٹر کے اراکین میں مسلمانوں کے ساتھ  متعدد مذاہب کے لوگ بھی ہیں۔
 ادارے کے بانیوں میں اس وقت کی اندرا گاندھی حکومت کے ساتھ جسٹس ہدایت اللہ، بیگم عابدہ احمد، حکیم عبد الحمید، چوھدری عارف خان، سیدنا برہان الدین سمیت متعدد اکابرین کے ساتھ  موسی رضا، سراج الدین قریشی، ریاض احمد و دیگر کے نام قابل ذکر ہیں۔
سینٹر کے ذرائع کا کہنا ہے’عدالتی حکمنامے کے بعد انڈیا اسلامک کلچرل سینٹرمیں ممبران کی سبسکرپشن فیس جمع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔‘
ذرائع کا کہنا ہے’ گذشتہ دنوں میں سینٹر کے موجودہ صدر سراج الدین قریشی اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے درمیان صدر کی عمر کی مدت کے حوالے سے اختلاف سامنے آیا تھا۔‘
 ’موجودہ صدر سراج الدین نے سینٹر کی جنرل باڈی کا اجلاس بلانے اور صدر کی عمر کی حد ختم کرنے کی تجویز دی تھی۔‘
جبکہ بورڈ آف ٹرسٹیز کا موقف تھا’ سینٹر کے بانیوں نے صدر کی عمر کی مدت 75 سال طے کی ہے  اس میں ترمیم نہیں ہونی چاہئے۔‘
یہ تنازعہ اس حد تک بڑھا کہ معاملہ عدالت میں گیا جہاں عدالت نے عمر کی پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے جنرل باڈی اجلاس بلانے کا حکم  جاری کیا۔
اس حکم کو سراج الدین اور ان کے ساتھتوں نے چیلنج کیا۔ عدالت نے فروری کی تاریخ طے کی۔ اب اس کیس کی سماعت فروری کے آخری ہفتے میں ہونے کی امید ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے اس مرتبہ دو سے زیادہ  صدارتی امیدوار ہوں گے (فوٹو: فیس بک)

عدالتی حکم کے بعد سینٹر میں جسٹس تلونت سنگھ کو کورٹ آبزرور کا تقرر کیا گیا ہے۔
کورٹ آبزرور نے عدالتی حکم کے بعد فیس جمع کرنےکےلیے 31 جنوری 2024 آخری تاریخ طے کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق فروری کے پہلے ہفتے میں کوڈ آف کنڈکٹ کے نفاذ اور آخری ہفتے میں ووٹنگ کی امید ہے جس کے بعد سینٹر کو نیا صدر ملنے کی توقع ہے۔
 ممکنہ صدارتی امیدواروں میں سراج الدین قریشی گروپ سے ایس ایم خان شامل ہیں جو اس وقت سینٹر کے نائب صدر ہیں۔
دوسرے گروپ سے ابرار احمد جو اس وقت سکریٹری ہیں امید وار ہو سکتے ہیں تاہم حتمی اعلان باقی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے اس مرتبہ دو سے زیادہ  صدارتی امیدوار ہوں گے۔ 

شیئر: