Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کا وہ انتخابی معرکہ جب بھٹو نے فرزندِ اقبال کو شکست دی

اس انتخابی معرکے میں جاوید اقبال کو علامہ اقبال کا سپوت ہونے کا فائدہ حاصل تھا (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
زہرا منظور الٰہی نے خود نوشت ’ہمسفر‘ میں لکھا ہے کہ 1970 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے جاوید اقبال کو شکست دی تو ان کے ابا جی نے کہا: ’لاہور سے علامہ اقبال کا بیٹا ہار جائے، شرم کا مقام ہے۔‘
 آغا شورش کاشمیری نے ’چٹان‘ میں نظم لکھ کر فرزندِ اقبال کی ہار پر پنجابیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
بھٹو کی لاہور سے کامیابی پر اہلِ لاہور، تحسین کے مستحق تھے نہ کہ تنقید کے۔ انہوں نے سیاست کو علاقائی اور لسانی تعصب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے شعور کی آنکھ سے دیکھا۔ اور یہ معاملہ صرف لاہور تک محدود تھوڑی تھا بھٹو کی مقبولیت کا چراغ پنجاب بھر میں روشن ہوا تھا۔
بھٹو کو لاہور سے کامیابی پر بڑا ناز تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی سوانح ’اپنا گریباں چاک‘ میں لکھا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد بھٹو نے گورنر ہاؤس لاہور میں اپنی تقریر میں پنجابیوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے فرزندِ اقبال کے مقابلے میں انہیں جتوایا۔
جاوید اقبال نے یہ بات ریڈیو پر بھٹو کی زبانی سنی لیکن اخبارات میں تقریر رپورٹ ہوئی تو اس میں فرزندِ اقبال والا فقرہ غائب تھا۔
اب اس الیکشن کی دلچسپ کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔  یہ لاہور کا حلقہ نمبر تین(این ڈبلیو ساٹھ) کہلاتا تھا، جس میں شامل نمایاں علاقوں کے نام ہمیں ’امروز‘ اخبار کے وسیلے سے جاننے کو ملے: گڑھی شاہو، دھرم پورہ، کمہار پورہ، میاں میر، ریلوے ورکشاپ، محمد نگر، قلعہ گوجر سنگھ، بیڈن روڈ کے وارڈ، ماڈل ٹاؤن اور لاہور چھاؤنی۔

جاوید اقبال کے حامی کون کون تھے؟

پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی وجہ سے پرانی سیاست گری خوار تھی۔ اس کے ہتھکنڈے بے اثر تھے۔ کونسل مسلم لیگ کے امیدوار ڈاکٹر جاوید اقبال کے سب سے بڑے سپورٹر شورش کاشمیری تھے جو ان کے جلسوں کا اہتمام بھی کرتے۔ نوائے وقت کے مجید نظامی ان کے حمایت میں پیش پیش تھے۔ جماعت اسلامی ساتھ دے رہی تھی۔
مولانا مودودی نے پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ نواب زادہ نصر اللہ سے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے امیدوار میجر جنرل سرفراز خان کو دستبردار کروا لیں تاکہ بھٹو اور جاوید کا ون ٹو ون مقابلہ ہو مگر انہوں نے یہ بات نہیں مانی۔

ڈاکٹر جاوید اقبال کے سب سے بڑے سپورٹر شورش کاشمیری تھے (ٖفوٹو: محمود الحسن)

جنگ ستمبر میں لاہور کے جی او سی ہونے کی وجہ سرفراز خان سے شہری واقف تھے۔ ادھر بھٹو جنگ کے دنوں میں وزیر خارجہ تھے۔ دونوں جنگ کے دوران ایک دوسرے کے کردار پر بھی انگلی اٹھاتے رہے۔
سرفراز خان کا خیال تھا کہ انہیں جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہو گی کیونکہ گزشتہ چند ماہ سے، اس کی، کونسل مسلم لیگ سے ٹھنی ہوئی تھی لیکن جماعت نے اپنا وزن جاوید اقبال کے پلڑے میں ڈالا جن کے بقول’مجھے بھٹو کے سوشلسٹ کامریڈوں اور جنرل سرفراز کے اسلام پسند غازیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
روزنامہ امروز نے دو نومبر 1970 کو اپنی رپورٹ میں جاوید اقبال اور سرفراز خان کی پوزیشن کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا:
پنڈی گھیپ کے جنرل سرفرار خان نے سال رواں کے وسط ہی میں اس حلقے میں انتخابی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ زمانۂ جنگ کے جی او سی لاہور ہونے کی بدولت وہ سارے شہر کے اہل الرائے سے اچھی طرح متعارف ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم بھی بڑی باقاعدگی اور قوت سے چلائی ہے لیکن حکیمِ ملت کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال شہر کے آدمی، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر، جواں سال، جواں فکر خطیب اور معروف شخصیت ہیں۔ میجر جنرل سرفراز کو  اگر فوجیوں کے ووٹوں اور سردار احمد علی کے توسط سے ارائیں برادری کے ایک حصے کے ووٹوں کے بارے میں یقین ہے تو ڈاکٹر جاوید اقبال کو مسلم لیگ کے تینوں دھڑوں کی حمایت کے علاوہ شہر کی کشمیری برادری کی دعائیں حاصل ہیں۔

صدر یحییٰ کس جانب کھڑے تھے؟

صدر جنرل یحییٰ خان کی ہمدردیاں بھی جاوید اقبال کے ساتھ تھیں اور وہ انہیں متحدہ مسلم لیگ کا صدر دیکھنا چاہتے تھے۔ بھٹو سے الیکشن ہارنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے ڈاکٹر جاوید اقبال کو جج بنانے کی سفارش یحییٰ خان کے پاس پہنچی تو انہوں نے جاوید اقبال سے کہا:
چیف جسٹس نے ججی کے لیے آپ کا نام بھیجا ہے، لیکن آپ نے اتنی جلدی ہمت کیوں ہار دی؟ میں تو گذشتہ الیکشنوں کو کالعدم قرار دینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور ازسر نو الیکشن کرانے کا ارادہ ہے جس کے رولز کے تحت اس سیاسی جماعت کو کامیاب قرار دیا جائے گا جو  اپنے ’ونگ‘ کے علاوہ پاکستان کے دوسرے ’ونگ‘ سے ایک تہائی ووٹ حاصل کرے‘ میں (جاوید اقبال) نے عرض کی ’سر! میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھ میں ملکی سیاست میں حصہ لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘
 یحییٰ خان کے عزائم کی بلندی ملاحظہ کریں۔ ملک سنگین بحران سے دوچار ہے اور وہ ایسے منصوبے گانٹھ رہے تھے جن کی کامیابی کا ان کے سوا کسی کو یقین نہیں تھا۔

روزنامہ امروز نے اپنی رپورٹ میں جاوید اقبال اور سرفراز خان کی پوزیشن کا موازنہ پیش کیا (فائل فوٹو: محمود الحسن)

 خیر ہم بات کر رہے تھے  بھٹو بمقابلہ جاوید اقبال انتخابی معرکے کی۔ جاوید اقبال کو علامہ اقبال کا سپوت ہونے کا فائدہ حاصل تھا، ان کی اس شناخت کو انتخابی جلسوں میں اجاگر کیا جاتا۔
جاوید اقبال پاکستان بنانے والی پارٹی کا امیدوار ہونے کے دعوے دار تھے۔ اسی حلقے سے کنونشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر احمد سعید کرمانی میدان میں تھے، جن کا لاہور کے ایک سیاسی اجتماع میں ذکر ہونے پر بھٹو نے کہا تھا ’ہُو اِز شی؟
بھٹو پر جاوید اقبال کو یہ سیاسی برتری حاصل تھی کہ دسمبر 1964 میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں انہوں نے ایوب خان کے بجائے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا اور جلسوں میں ان کے ساتھ رہے تھے۔ بھٹو اس زمانے میں ایوب خان کے قریبی ساتھی تھے۔ 

’قیمے والے نان اور ٹرانسپورٹ ہماری لیکن ووٹ بھٹو کو‘

70ء کے الیکشن میں بھٹو کے ذاتی کردار پر مخالفین کی طرف سے کیچڑ تو اچھالا ہی گیا، سوشلزم بھی بمنزلہ کفر قرار پایا۔ جاوید اقبال کو نظریہ پاکستان کے علمبردار اور بھٹو کو اس نظریے کے دشمن کی صورت میں پیش کیا جاتا۔ ان کے پوسٹروں پر یہ لکھا ہوتا کہ مقابلہ جاوید اقبال سے نہیں فکر اقبال سے ہے۔ الیکشن میں جاوید اقبال کی طرف سے ووٹروں کے لیے قیمے والے نانوں اور ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام تھا لیکن یہ سب بھی ان کے کام نہ آیا۔ وہ ’اپنا گریباں چاک‘ میں لکھتے ہیں :
’ میرے حلقے میں جتنے بھی پولنگ سٹیشن تھے وہاں انتظام بہت اچھا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے لیے قیمے والے نان موجود تھے اور میاں محمد شریف نے ووٹروں کو لانے کے لیے بسوں کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔ میرے ورکروں کو امید تھی کہ میں اس حلقے سے کامیاب ہوجاؤں گا۔لیکن ایسا نہ ہوا۔ بہت بڑی تعداد میں ووٹر میری ہی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ پر آئے، میرے ہی کیمپ سے قیمے والے نان کھائے اور چٹیں وصول کیں، لیکن اندر جا کر ووٹ بھٹو کو ڈال گئے۔ ‘

جاوید اقبال کو نظریہ پاکستان کے علمبردار اور بھٹو کو اس نظریے کے دشمن کی صورت میں پیش کیا گیا (فوٹو: محمود الحسن)

الیکشن کا نتیجہ آیا تو بھٹو نے 78 ہزار 132 اور جاوید اقبال نے 33 ہزار 921 ووٹ حاصل کیے۔
الیکشن ہارنے کے بعد جاوید اقبال کا سیاست سے جی بھر گیا۔ ان کی اگلی منزل لاہور ہائی کورٹ کا جج بننا تھی۔ انہیں جج کی حیثیت سے 1972 میں بھٹو نے ہی کنفرم کیا۔
سنہ  1977میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کے خلاف کیس میں جاوید اقبال کو بینچ کا حصہ بنانا چاہا تو انہوں نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ وہ ملزم کے مقابلے میں الیکشن لڑ چکے ہیں، یوں وہ لاہور ہائی کورٹ کے اس بدنام زمانہ بینچ کا حصہ بننے سے بچ گئے جس نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔

شیئر: