بیگم بھٹو نے ضیاءالحق کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت کے نام سے اتحاد بنایا، فوٹو: اے ایف پی
'پھولوں بھرے معاشرے کو بنجر بنانا سیاست نہیں۔ سیاست زندگی کی روح ہے۔ یہ عوام سے میرا لافانی رومانس ہے۔ یہ لافانی بندھن عوام ہی توڑ سکتے ہیں۔' یہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء کو ایک خط میں لکھا تھا۔ شاید وہ یہ بات بہت پہلے بیگم بھٹو کو بتا چکے تھے، اور وہ اس عوام سے لافانی رومانس پر آخر دم تک قائم رہیں۔
جمہوریت کی علامت اور بہادری سے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کی مزاحمت کرنے والی اس خاتون کو بچھڑے آج آٹھ سال ہو گئے۔ یاد رہے کہ نصرت بھٹو کا 23 اکتوبر 2011 کو دبئی میں انتقال ہوا تھا۔
نصرت خانم کے والد کا تعلق ایرانی کرد خاندان سے تھا، وہ کاروباری شخصیت تھے، اور برطانوی دور میں کراچی میں آ کر آباد ہوئے۔ پچاس کے عشرے کے اوائل میں ایرانی نسل کی خوب صورت خاتون نصرت خانم بھٹو سے ملیں تو پہلی ہی نظر میں پیار ہو گیا۔ دونوں کی شادی ہوئی، اور یہ محبت بھٹو کی پھانسی تک اور خود نصرت کے جیتے جی قائم رہی۔ یہ بھٹو کی دوسری شادی تھی۔
اس شادی نے بھٹو کی زندگی کو نیا موڑ دیا۔ مصروف اور متحرک وزیر خارجہ کی بیگم، چار بچے، انہوں نے اکثر بھٹو کے ساتھ بیرون ملک سفر کیا۔ چار بچوں کی پرورش، تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی، اور شوہر کا سیاسی امور میں ساتھ دیا۔
بھٹو نے جب معاہدہ تاشقند کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوب کابینہ سے استعفیٰ دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو نصرت بھٹو کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔
لیکن نصرت بھٹو کا اصل امتحان تب شروع ہوا جب ضیاء الحق نے شب خون مارا، ان کے شوہر کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور ملک میں مارشل لا نافذ کرکے بھٹو کو گرفتار کر لیا۔
بیگم بھٹو نے لوگوں کی قیادت اور جمہوری چراغ کو روشن رکھا۔ انہیں جمہوریت کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی زندگی کے لیے بھی لڑائی لڑنا پڑی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو سنہ 1979 میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ جنرل ضیاء نے اقتدار کو طول دینے کی ٹھان لی ہے۔ لہٰذا انہوں نے 13 ستمبر کو بیگم نصرت بھٹو کو آخری خط لکھا، اور انہیں کل مختار بناتے ہوئے پارٹی چلانے کی ذمہ داری سونپ دی۔
اس ہدایت نامہ نما خط میں جنرل ضیاء کی جانب سے پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے بیگم نصرت کو انہوں نے ہدایت کی کہ 'پارٹی کی مجلس عاملہ میں کوئی مسئلہ ہو حل کریں، انہیں میری طرف سے اختیار اور حمایت حاصل ہے اور وہ قائم مقام چیئرپرسن ہیں۔'
بیگم نصرت بھٹو سمجھتی تھیں کہ بھٹو نے جس سیاست کو عوام سے لافانی رشتہ اور رومانس کہا تھا وہ مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کا راستہ ہے۔
سانحے مسلسل ان کا پیچھا کرتے رہے۔ان کی اولاد میں سے صرف صنم بھٹو سیاست سے فرار حاصل کرنے کی وجہ سے زندہ ہیں۔ شوہر کو پھانسی دی گئی، دو بیٹے مارے گئے۔ بیٹی متعدد بار گرفتار ہوئیں۔ بیٹی کا قتل ہوا تو وہ اس حالت میں نہیں تھیں کہ کچھ سن سکیں۔
انہوں نے پاکستانی ریاست کے ہر جبر کا جرات مندی سے مقابلہ کیا۔ شوہر کی حکومت سے برطرفی، ان کی گرفتاری، مقدمہ قتل، گھر ہوتے ہوئے بے گھر رہیں، جلاوطنی، شوہر کو سزائے موت اور رات کے اندھیرے میں ان کی تدفین تک سب کچھ برداشت کیا۔
بھٹو کی سزائے موت پر عمل کے بعد بیگم نصرت پارٹی کی چیئرپرسن نامزد ہو گئیں۔ مارشل لا کے خلاف علم بغاوت بلند رکھنے کی پاداش میں انہیں متعدد بار گرفتار کیا گیا، اور قذافی سٹیڈیم لاہور میں ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، ان کے سر پر چوٹیں آئیں اور 12 ٹانکے لگے۔
بیگم بھٹو نے پارٹی کو کئی بحرانوں سے نکالا اور مختلف حلقوں سے گروہ بندی کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ اکتوبر 1979 کے بلدیاتی انتخابات میں ایوب خان کی تحریک میں پارٹی سے سیاسی وفاداریاں برقرار رکھنے والوں کو ٹکٹ دیے۔ وہ لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گئیں کہ بھٹو کی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ جائے گی۔
جنرل ضیا کا خیال تھا کہ بھٹو کے بعد ان کی پارٹی ٹوٹ جائے گی۔ ضیا نے نہایت ہی پیچیدہ انتخابی قواعد بنائے تاکہ کسی طرح سے پیپلز پارٹی کو آؤٹ کیا جا سکے۔ پیپلزپارٹی نے ان انتخابات میں 'عوام دوست' نام سے امیدوار کھڑے کیے۔
بلدیاتی انتخابات نے حکومت کو سمجھا دیا کہ پیپلز پارٹی عام انتخابات کی صورت میں جیت جائے گی، لہٰذا ضیاء نے غیر معینہ مدت تک عام انتخابات ملتوی کر دیے۔
ضیاء کو خفیہ رپورٹس ملی تھیں کہ صرف بھٹو خواتین ہی عوام کو سڑکوں پر لا سکتی ہیں، لہٰذا انہوں نے گرفتاریوں، سفری پابندیوں اور دیگر بندشوں کے ذریعے ماں بیٹی کو باز رکھنے کی کوشش کی۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی والدہ کی ایک چھاپہ مار کارروائی کا ذکر کیا تھا کہ وہ کس طرح برقع پہن کر دادی اماں کے روپ میں ایک بچے کو ساتھ لیے چھپ کر بذریعہ ریل لاہور میں ایم آر ڈی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچیں۔
نصرت بھٹو کو اپنی بیماری کے بیرون ملک علاج کے لیے 83 روز تک جنگ لڑنا پڑی۔ اس کے لیے عالمی رہنماؤں نے بھی ضیاء پر دباؤ ڈالا۔ انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھی ان کے علاج کے لیے ضیاءالحق کو خط لکھا۔
ایک انٹرویو میں نصرت بھٹو نے بتایا کہ 'ساڑھے پانچ سال کے عرصے میں وہ چار سال جیل یا گھر میں نظربند رہیں۔‘
مارچ 1981 میں انہیں سی کلاس میں اور عام خواتین قیدیوں کی طرح رکھا جاتا تھا۔
گھر میں ان کی نظر بندی بھی قید تنہائی کی طرح تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ’ 70 کلفٹن پر بھی وہ اپنے جیل کے تالے استعمال کرتے تھے، اور ہم سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ٹیلی فون ٹیپ کیے جاتے تھے اور ملنے والوں پر بھی نظر رکھی جاتی تھی۔'
بیگم بھٹو نہایت باہمت خاتون تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے سہالہ گیسٹ ہاؤس راول پنڈی میں پانچ اپریل 1979 کا واقعہ لکھا ہے: امی نے سوپ دیتے ہوئے کہا کہ 'پنکی تمہیں کچھ کھانا چاہیے۔ تم کو پوری توانائی چاہیے، جب ہم یہاں سے رہا ہوں گے تو ہمیں الیکشنز کی تیاری کرنی ہے۔ اگر تمہیں اپنے والد کے اصولوں کے لیے لڑنا ہے تو اس طرح سے لڑو جس طرح وہ لڑتے تھے۔ پھر کچھ کھا لو، لازماً کچھ لو۔'
یہ ان کا دوسرا بڑا سیاسی کارنامہ تھا کہ وہ ضیاء الحق کے خلاف مختلف الخیال پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئیں اور تحریک بحالی جمہوریت کے نام سے اتحاد بنایا۔ انہیں اس مقصد کے لیے ان رہنماؤں کے ساتھ بھی بیٹھنا پڑا جنہوں نے ان کے شوہر کے خلاف ضیا کا ساتھ دیا۔ ان کا اجتماعی جدوجہد پر یقین تھا۔
سردار شیر باز مزاری اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ’جب 70 کلفٹن پر ایم آر ڈی کا پہلا اجلاس ہو رہا تھا، تو اچانک کمرے میں بے نظیر بھٹو داخل ہوئیں اور بہت غصے میں بولیں کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں جن کے ہاتھ میرے والد کے خون سے رنگے ہوئے ہوں۔‘
بیگم بھٹو کے سمجھانے پر وہ چلی گئیں۔ کچھ دیر تک سناٹا چھا گیا۔ نواب زادہ نصراللہ نے برف کو توڑنے کے لیے بھٹو کی تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ شام کو یہ اجلاس شیر باز مزاری کے گھر پر ہوا۔
تمام جوڑ توڑ اور ساز باز کے باوجود پیپلز پارٹی نے سنہ 1988 کے انتخابات جیتے، مقتدر حلقے انہیں اقتدار دینے پر مجبور ہو گئے۔ ںصرت بھٹو دو مرتبہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور ایک مرتبہ سینیئر وزیر رہیں، جب بے نظیر بھٹو زچگی کی چھٹیوں پر تھیں تو وہ قائم مقام وزیراعظم بھی رہیں۔
جب مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اختلافات ہوئے تو بیگم بھٹو نے مرتضیٰ کا ساتھ دیا۔ بعد میں ان ہی کی کوششوں سے بہن بھائی کی ملاقات بھی ہوئی۔
بے درد سیاست کی دنیا میں نصرت نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ جواں سال بیٹے شاہنواز کی پراسرار حالات میں موت اور چند برس بعد بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت نے ان کی صحت پر تباہ کن اثرات چھوڑے۔
وہ سیاست میں لڑاکو کردار کے طور پر پہچانی جائیں گی۔ انہوں نے بے رسا لوگوں کے حقوق کے لیے سڑکوں پر اور عدالتوں میں لڑائیاں لڑیں۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا 'میں پاکستان کے لوگوں سے ہی حوصلہ لیتی ہوں، انہوں نے میری بڑی حمایت اور مدد کی۔'
وہ فیض کے بقول بھٹو کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں:
جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی تیرے عشق کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں